Advertisement

عبیداللہ بیگ

معروف دانشور، ناول نگار اور ٹیلیویژن کے میزبان عبیداللہ بیگ کاپاکستان کی حد تک تعارف کرانا،سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ جب لوگوں کی ان سے ملاقات ہوتی تھی تووہ ان کی گفتگو سے لطف لیتے،مرحوم انتہائی عاجزی سے بات کرتے تھے،گویا انکساری اور عاجزی ان پر ختم تھی۔ چندملاقاتوں کاشرف ہمیں بھی حاصل ہوا۔ وہ اس طرح کے ہمارے ہم محلّہ جاویدمجدّدی ان کے آفس میں کام کرتے تھے۔ اس زمانے میں وہ علاقہ،گاؤں، شہروں پر دستاویزی فلمیں بناتے تھے۔
جاویدکی مصروفیت کاپتا چلاتوان سے ملنے کی خواہش بیدار ہوئی۔ ان کو اس خواہش کاپتہ چلاتو کہا:”کسی دن آجاؤ،ان سے ملاقات کے لیے، کوئی وقت لینایاکوئی دوسری پابندیاں نہیں ہیں“۔ ان کے بتائے ہوئے پتے پر ڈیفنس لائبریری کے عقب میں پہنچ گئے۔ بہت گرمجوشی سے استقبال کیا،حالانکہ ہمارا تعارف اتنا ہی تھا کہ جاویدکے دوست ہیں۔
بڑی محبت سے مکالمے کاآغازہوا، وہ اس اندازسے گفتگو کررہے تھے جیسے یہ خاکسار کوئی بڑادانشورہے اور وہ کچھ سیکھناچاہ رہے ہیں، ہم اپنی حیثیت سے اچھی طرح واقف تھے کہ من آنم کہ من دانم۔تقریباًایک گھنٹے کے بعد اٹھنے کاارادہ کیاتو فرمایا کچھ دیراورتشریف رکھیں، گفتگومیں مزاآرہاہے۔ ہم خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ ہماری گفتگو انتہائی سنجیدہ مزاج، دانشور اور حلیم الطبع لوگوں کے لئیے اس قدردلچسپ ہوسکتی ہے۔اس دوران بدکلامی کاکوئی لفظ ہماری طرف سے ادانہیں ہوا، کسی ذومعنی لطیفے تک بھی پہنچ نہ ہوئی حالانکہ یہ عام پاکستانیوں کی گفتگوکا جزولاینفک ہے۔بیگ صاحب کی گفتگوکی ترجمانی احمدفراز کے اس شعرسے ہوتی ہے۔؎
سناہے وہ بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
آخرمیں ہم نے صرف یہ کہاکہ:”آپ رہنے والے رام پور کے ہیں،جہاں کی چھریاں مشہورہیں لیکن گفتگو آپ کی لکھنؤ والوں کی طرح کی ہے“۔ یہ سن کراتناہنسے کہ میں پریشان ہوگیا۔ کچھ زیادہ وضاحت تونہیں کی بس اتنابتایاکہ رام پورپٹھانوں کی ریاست تھی،وہاں کے لوگوں کامزاج سخت ہوتاہے،لیکن اپنے رویّہ کی وضاحت نہیں کی۔ہم نے رام پورکی ریاست کے حاکم کی کارکردگی کاذکرنہیں کیاجو مختلف کتابوں کے مطالعے سے ہمارے علم میں آئے تھے کہ حاکمِ رام پور کی دلچسپی حسیناؤں اورمجروں تک محدودتھی۔
ایک کتاب ہے ”فریڈم ایٹ مڈنائٹ“ یعنی آدھی رات کی آزادی۔دوگوروں کی لکھی کتاب ہے جس میں ریاست کے حاکموں کی خاص توجہ اور شوق کاذکرکیاگیاہے۔
آخر میں ہم نے اپنی کچھ الٹی سیدھی تحریریں ان کے حوالے کی کہ پڑھ کراپنی رائے دیں، اپنی پکائی ہوئی ڈش اوراپنی تحریر سب کو اچھی لگتی ہے،لیکن پھر بھی ہم ایک غیرجانبدارانہ رائے سننے کے مشتاق تھے۔
؎ ہمیں کیاپتہ تھاکہ بیگ صاحب اپنی اتنی مصروفیات کے باوجود اتنی جلد پڑھ لیں گے۔ شام کے وقت جاوید دفتر سے واپسی پر ہمارے گھر تشریف لائے اور بتایاکہ بیگ صاحب نے تحریر کا بہت لطف لیا اور بہت تحسین آمیز الفاظ اداکیے۔ ہم نے اسے بڑوں کی طرف سے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی پرمحمول کیا۔ بزرگوں کا کام ہے کہ ہرمیدان میں نئے لوگوں کی حوصلے بڑھائیں۔
ایک دن ہماری موجودگی میں وہاں فرش کی صفائی اور پوچھا لگانے والاجاوید سے الجھ پڑا،قبل اس کے کہ جاوید اپنی زبان میں اسے کچھ سناتے، بیگ صاحب نے مداخلت کی اور اس خاکروب سے کہا:”دیکھئے ہم آپ کی خدمت کااتناہی معاوضہ دے سکتے ہیں،اگر آپ اسے مناسب نہیں سمجھتے تو فیصلہ کرلیں“۔ہم پریشان تھے کہ بھنگی سے آپ جناب سے گفتگوہورہی ہے جب کہ داغ دہلوی کہہ گئے ہیں۔؎
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی
اس وقت بات رنج کی تھی لیکن بیگ صاحب کامزاج آپ سے آگے بڑھنے کی حد عبورکرنے کی اجازت نہیں دے رہاتھا۔ سوچا ہم یاجاوید ہوتے تو بات تَوسے بڑھ کر’تیری‘ تک پہنچ جاتی۔
ایک ملاقات میں ذکرعنایت علی خان مرحوم کاآگیا،ہم نے دریافت کیا،ان سے ملناچاہیں گے،فرمایا ملنا توبہت چاہتا ہوں، لیکن وہ سیڑھیاں چڑھ کر کیسے آئیں گے“ (یادرہے کہ ان کا دفترپہلی منزل پرتھا)۔خیر ان کو بتائے بغیر ایک دن ہم عنایت صاحب کوان کے دفتر لے گئے(عنایت صاحب ان دنوں حیدر آباد میں مقیم تھے لیکن کراچی آناجانالگارہتاتھا)۔ دفترمیں داخل ہوتے ہی جب بیگ صاحب کی نظرپڑی توکھڑے ہوگئے، فرمایا: ”زہے نصیب! زہے نصیب“کی گردان کئی مرتبہ کی اور دروازے تک جاکر ان کاہاتھ پکڑکر کرسی تک لائے،طویل گفتگو رہی، وہ ہمارے بہت ممنون تھے کہ یہ ملاقات کرائی۔اس قدر والہانہ استقبال پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بیگ صاحب سے یہ سیکھاکہ کسی محبوب وپسندیدہ شخص کاکیسے استقبال کیاجاتاہے۔ اس سے قبل ہماری جن شخصیات سے ملاقات ہوتی تھی،وہ علم و فضل کی پہنچی ہوئی شخصیات توتھیں،لیکن ان کی تکبّر،رعونت اور خودنمائی دیکھ کرکبھی اٹھ کر ملنے کی توفیق نہ ہوسکی۔
چندسال قبل کسی چینل پرپچاس سال قبل کے مشہور پروگرام ’کسوٹی‘ دوبارہ پیش کیاگیا،لیکن اس مرتبہ سوال پوچھنے اور شخصیت کو بوجھنے والی دو افرادکی ٹیم نہ تھی، اکیلے صرف بیگ صاحب تھے۔ کسی مہمان نے طارق فتح کومنتخب کیا۔ طارق فتح ایک دین کے باغی انسان تھے۔ کوئی معروف شخصیت نہ تھے، 1969-70 میں جامعہ کے بائیں بازو کے سرکردہ کارکن تھے، کسی جماعت کاتنظیمی عہدہ نہ رکھتے تھے اور نہ کبھی طلبا یونین کے انتخاب میں حصّہ لیا۔ جیالوں کے دورسفارش کی بنیاد پر پی ٹی وی کے خبروں کے انچارج بن گئے تھے، اس وقت تک ان کا ان کا اس میدان میں کوئی تجربہ نہ تھا،کئی افراد جو ان سے کہیں سینئر تھے،ان کے سرپرانہیں سوارکردیا گیا، کہتے ہیں:”جسے پیا چاہے وہی سہاگن“۔ جب جیالوں کی حکومت ختم ہوئی تو انہیں اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑا۔سعودی عرب چلے گئے،چند سال وہاں گزار کر کینیڈ آگئے اور اسلام کے خلاف سرگرمی شروع کردی۔قصّہ مختصر، خاکسار نے اس سے کہاکہ طارق فتح ایسی شخصیت تونہیں ہے جسے معلومات عامّہ میں پوچھاجائے۔
ہم نے بڑی لمبی تقریرکی کہ ایسے لوگ خودکومقبول کرنے کے لیے ایسی حرکت کرتے ہیں۔وہ ہماری باتیں سنتے رہے،گوانداز گفتگوسے ظاہر تھاکہ ہماری بات سے اتفاق کرتے ہیں،انہوں نے کہاکہ ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ انہوں نے کینیڈا میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف کتاب لکھی ہے۔ لیکن اس کے خلاف کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے اتناکہا:”پھربھی ہم نے اسے بوجھ لیا“۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ کسی کے خلاف منفی تبصرہ کرنے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ اختلاف کرتے ہیں لیکن تنقید سے دور رہتے ہیں۔
ایساہی ایک موقع اور آیا۔ تقسیم سے قبل تین بڑے ادبی ماہنامے نکلتے تھے۔ لکھنئوسے ’نگار‘،دہلی سے ’ساقی‘ اور لاہور سے ’ادب لطیف‘۔ماپنامہ نگار کے مدیرنیازفتح پوری جب علّامہ اقبال سے ملاقات کرکے گئے توواپس آکراپنے رسالے میں علّامہ پر بڑاتوہین آمیز مضمون لکھا۔ انہوں نے ان کے تلفّظ کامذاق اڑایاکہ وہ اقبال کو’اکبال‘ کہتے ہیں۔ملازم کوکہاحقّہ کی جگہ’حکّہ‘لانے کی ہدایت کی۔ حالانکہ دنیابھرمیں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ پنجاب کی بڑی اکثریت قدرتی طورپر ’ق‘ کہ جگہ ’ک‘ کہتی ہے۔ہمارے میمن بھائیوں کی اکثریت بھی اس خوبی سے متصف ہے۔ یہ ایک قدرتی نقص ہے۔ہم نے ایک مضمون میں ان کانام لکھ کر بیان کیا:”انہوں نے بڑے رکیک انداز سے علّامہ کی تضہیک کی“۔ بیگ صاحب نے پڑھنے کے بعد مسودہ میں سے ’رکیک انداز‘ کے الفاظ کاٹ دیے۔ہمیں کہاکہ مصنف نے جوعامیانہ انداز اپنایاہے وہ تو اس مضمون کے پڑھنے والوں نے محسوس کرلیاہوگا۔ آپ کیوں غلاظت کوکرید رہے ہیں“۔غالب یاد آگئے:”کریدتے ہوراکھ جستجوکیاہے“۔ اس سے ایک بار پھر ہمیں پتا چلا کہ وہ کسی کے بارے میں منفی تبصرہ نہیں کرتے ہیں چاہے کتنابھی برحق ہو۔
ایک مرتبہ اپناتحریرکردہ ایک سیاسی مضمون جو 2011میں اردو ڈائجسٹ میں چھپاتھا ان کو مطالعے کے لیے دیاتو ہمیں سیاست سے باز رہنے کامشورہ دیا۔ ہم نے کہاہماراخمیر ہی سیاسی گفتگواورتبصرے سے بناہے تو چند ایسے صحافیوں کی مثال دی جو کچھ عرصہ قبل مخالف گروپوں اور حکومت کی بربریت کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
ان کی باتیں،ان کاطرزعمل دیکھ کرفیض یاد آتے رہے ؎ وہ تووہ ہے،تم کو ہوجائے گی الفت مجھ سے اک نظرتم مرامحبوب نظرتودیکھو
بیگ صاحب سے ہماری جب ملاقات ہوئی تووہ ستر تک پہنچ چکے تھے لیکن اس عمرمیں بھی خوش شکل، خوش اخلاق، خوش گفتار غرض کہ خوش کے ساتھ جوتعریفی کلمات جوڑدو،سب ان کی شخصیت کاحصّہ تھیں۔ غصّہ،طیش کے عالم میں گفتگوکرنا،ان کی فطرت میں داخل نہیں تھا۔ٹھہرٹھہرکربات کرنا، مخاطب کی بات بڑے غورسے سننا،ان کی شخصیت کااہم پہلوتھا۔
ایک ملاقات میں انہوں نے ایک مختصرناول پڑھنے کودیا: ’سراب‘۔ ایک نیم رومانی ناول تھا،خطوط پرمبنی تھا۔بہت اچھا لگا، اگلی ملاقات میں اس ناول کی بہت تعریف کی توفرمایا:”اس پر آپ تبصرہ تحریرکردیں“۔ چنددنوں بعد ناول سے متعلق تاثرات قلم بندکرکے پیش کیے توفوراً پڑھ کر کہا:”دوتین تبصرے اور لکھے گئے ہیں، لیکن آپ کاتبصرہ سب سے بہترہے“۔ ہم اس پرنازاں تھے، شاید وجہ یہ تھی کہ ناول کی خط و کتابت کوہم نے غالب کے خطوط اور بیگم صفیہ اختر(آج کے معروف فلمی مصنف اور شاعر جاوید اخترکی والدہ)کے شوہرکے نام خطوط ”زیرِ لب“ کے بعد انتہائی دلچسپ اور بہترین قرار دیاتھا۔
کچھ دن بعد ان کے دفترمیں ہماری موجودگی میں دواصحاب تشریف لائے،ایک خواجہ عطاء اللہ اور دوسرے اسدواحدی صاحب،ہمارا تعارف کرایا گیا،ساتھ ہی بیگ صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ تبصرہ ہماراتحریرکردہ ہے۔ اسد واحدی صاحب (مصنف مذکورہ ناول)نے کچھ کہاتونہیں لیکن دوران گفتگوان کا التفات بتارہاتھاکہ انہیں وہ تبصرہ پڑھ کربہت خوشی ہوئی۔
یہ معمول ہوگیاکہ ہر مرتبہ وہ کچھ وقت مزید روکتے۔
اب ہم انٹر نیٹ پردی گئی ان کی شخصیت کی تفصیل پرنظر ڈالتے ہیں۔ وہ پہلی اکتوبر1936کورام پورمیں پیداہوئے اور 22جون2012 کو کراچی میں پورے ادبی عالم کوسوگوار چھوڑ گئے۔ انہوں نے تین سو سے زائد ڈاکومنٹری بنائیں جو جنگلات، ریہاتی زندگی اور تاریخی مقامات پرمبنی تھیں۔ ان کے توسط سے علم ہوا کہ علم کاتعلق ڈگری سے نہیں ہوتاہے۔ ان کی درسی تعلیم صرف انٹر تک تھی۔ ان کے مطالعے اور یادداشت پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان سے صحبت گرچہ بہت مختصر رہی، پھربھی بہت سیکھا؎
گرچہ تھوڑا تھا، تری ذات سے پایا بہت
تو ہوا رخصت تو یہ خیال آیا بہت
بیگ صاحب رخصت ہوئے توناصر کاظمی یاد آتے ہیں ؎
وہ ہجر کی رات کاستارہ، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدارہے اس کانام پیارا سناہے کل رات مرگیاوہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کرسفرکیاتونے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سرجھکائے گزرگیاوہ

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: