Advertisement

ارطغرل غازی ۔ سلاطین عثمانیہ کا جد امجد

برصہ پہنچتے ہی ارطغرل غازی کی یاد آنے لگی۔ اس کا شہر برصہ سے صرف 126 کلو میڑ دور تھا ۔
اگلے ہی روز علی الصبح ہم سوت کی طرف چل دئیے ۔
سوت Söğüt برصہ کے شمال مشرق میں اونچے پہاڑوں اور سر سبز جنگلوں میں گھرا ایک چھوٹا سا شہر ہے ۔ اسے شہر کہنا زیادتی ہے دراصل یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں سے سلطنت عثمانیہ نے جنم لیا ۔
اسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہےکہ پوری دنیا میں چھ سو سال حکومت کرنے والے عثمانی ترک اس معمولی چند ہزار کی آبادی والے قصبے سے اٹھے تھے۔
برصہ سے سوت کی جانب انتہائی اونچے پہاڑوں کے درمیان تنگ بل کھاتی سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ وہ لوگ کیسے ہوں گے جو ان پر پیچ دشوار گزار راستوں سے گذر کر برصہ پہنچے نو سال کے محاصرے کے بعد اسے فتح کیا اور پھر ساری دنیا پر چھا گئے ۔
تیرھویں صدی مسلمانوں کے لئے بڑی مشکل صدی تھی منگولوں کے ہاتھوں خوارزم کی تباہی نے مسلمانوں پر قیامت ڈھا دی۔ پوری دنیا اور خاص طور پر سنٹرل ایشیاء کے مسلمان منگولوں سے جان بچاتے پھر رہے تھے ۔
ایسے میں چند ہزار افراد پر مشتمل ارغوز ترکوں کا قائی قبیلہ بھی منگولوں کے ہاتھوں لٹ لٹا کر جانیں بچا کر شام کے راستے ایشاءکوچک میں داخل ہوا۔
اس قبیلے کا سردار سلیمان شاہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور انتہائی دلیر شخص تھا اس کے چاربیٹے تھے گندوگدو بے ،ارطغرل بے ،سنجرطین بے اور دندار بے۔
اس وقت سلجوقی سلطان علاالدین انطاکیہ کے بیشتر مشرقی حصے پر حکمران تھا اس کا دارالحکومت قونیہ تھا طاقتور ترین سلجوق سلطنت ملک شاہ کے بعد تین حصوں میں بٹ کر بہت کمزور ہوگئی تھی ۔
ایشیاء کی سلجوق ریاستیں ختم ہوچکی تھیں اب صرف انطاکیہ کی سلجوق ریاست باقی بچی تھی جسے تاریخ دان سلاجقہ روم کہتے ہیں لیکن تیرہویں صدی کے وسط میں اب وہ بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی اسے دوہرے دشمن کا سامنا تھا مشرق کی جانب سے منگول ان کے دروازے پر دستک دے رہے تھے تو مغرب میں طاقتور بازنطینی ہمیشہ کی طرح ان کے لئے بڑا خطرہ تھے سلطان علاالدین کو سیلمان شاہ اور ارطغرل جیسے جاں فروشوں کی اشد ضرورت تھی اس کی خواہش تھی کہ جنگجو ترک سلجوق سلطنت اور بازنطینی علاقوں کے درمیان رہائش پزیر ہو کر سلجوقی ریاست کے دفاع میں مدد دیں اس نے قائی قبیلے کو اس شرط پر پناہ دی کہ وہ اس کی سلطنت کے مغربی حصے میں آباد ہوکر رومیوں کے خلاف اس کی مدد کریں گےاور انہیں اپنےمغربی سرحدی علاقے سوت کی عملداری کی پیشکش کی سیلمان شاہ نے اس چیلنج کو قبول کرلیا۔
سیلمان شاہ قلیل علالت کے بعد 1236ء کو فوت ہوا بعض روایات کے مطابق اسکی موت دریائےفرات میں ڈوب کر مرنے سے ہوئی ، تو آرام طلب اور صلح پسند گندوگدو اور سنجرطین بے نے اپنے باپ کے اس فیصلے کو خود کشی قرار دیا اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا ان کا خیال تھا کہ سلجوق سلطان انہیں قربانی کا بکرا بنا کر ایسی جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے جہاں پہنچ کر کوئی فرد بھی زندہ نہیں بچے گا جبکہ بلند حوصلہ بلند نظر بلند اقبال ارطغرل ہر حال میں باپ کے فیصلے کا پاس کرنا چاہتا تھا نتیجتا” دونوں بڑے بھائیوں میں قبیلے کی سرداری پر جھگڑا ہوا اور قبیلے کی اکثریت نے گندوگدو بے کو سردار مان کر سوت جانے سے انکار کر دیا اور صرف چند سو لوگ ارطغرل کے ساتھ جانے کو تیار ہوئے سیلمان شاہ کی بیوی اور ان کی ماں خیمہ خاتون اور سب سے چھوٹے بھائی دندار بے نے ارطغرل کا ساتھ دیا ۔
تقریباً ڈیڑھ ہزار کلو میڑ کا فاصلہ طے کر کے ارطغرل اپنے چند سو ساتھیوں کے ساتھ سوت میں جا آباد ہوا۔ اجنبی سرزمین اجنبی زبان اجنبی لوگ اور بے سروسامانی اور غربت ، حالات بہت مشکل تھے سب سے بڑا مسئلہ چند کلو میٹر کے فاصلے پر موجود دنیا کی طاقتور ترین بازنطینی ریاست تھی جسے اپنی سرحد پر ترک مسلمانوں کی آمد یکسر قبول نہ تھی لیکن وفادار ساتھیوں کا ساتھ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے ساتھ ٹکرانے کا حوصلہ اور حا لات کا سامنا کرنے کی جرآت ارطغرل کی طاقت اور اثاثہ تھی۔
اس بے سروسامانی اور کسمپرسی کی حالت میں بھی اس کی نظریں قسطنطنیہ پر تھیں۔ وہ لوگ بھی جو ارطغرل کو پاگل سمجھتے تھے رفتہ رفتہ اس پر اور اس کی قیادت اور بصیرت پر ایمان لے آئے۔
بہت جلد اس نے اس اجنبی سرزمین پر اپنی جڑیں مضبوط کرلیں بکھرے ہوئے ترک اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔
اس نے نہ صرف منگولوں کو شکست دی بلکہ بازنطینی سلطنت کے عین سینے میں ایک مضبوط ریاست قائم کردی اور جب 1280ء میں نوے سال کی عمر میں وہ فوت ہوا تو اس وقت تک بازنطینی روم کی مشرقی سرحد پر ریاست اور قیادت دونوں کی صورت میں ایک ایسی مضبوط بنیاد فراہم کر چکا تھا جو آنے والے دنوں میں قسطنطنیہ کی فتح کا پیش خیمہ بنی اور یہی اس کا مقصد تھا اس کی جنگ ترکوں اور رومیوں کی جنگ نہیں بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگ تھی ْ
بہت تھوڑی مدت میں اس کے بیٹے عثمان غازی کی قیادت میں ارطغرل کی قائمُ کردہ چھوٹی سی عملداری سلطنت عثمانیہ میں بدل گئی سوت کی چھوٹی سی بستی سے نکل کر عثمان برصہ تک پہنچا تو اور خان اپنے دادا کی قائم کردہ ریاست کو برصہ فتح کرنے کے بعد یورپ کی سرحدوں تک لے گیا۔
اور خان کے بعد مراد خان اوّل نے ادرنہ کو زیر کیاتو یہ ریاست بلغاریہ کی سرحد تک پھیل گئی اور اس کے بعد بایزید یلدرم اور مراد خان دوئم بلغاریہ ویانا مسیڈونیا کروشیا ہنگری اور رومانیہ کی مضبوط ریاستوں کو کچلتے فرانس کے دروازے تک جا پہنچے۔
1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے ارطغرل کا خواب پورا کردیا ۔
محمد فاتح کے پوتے سلطان سیلیم اوّل نے 1517ء میں عراق شام مصر عرب فلسطین فتح کئے تو دولت عثمانیہ خلافت عثمانیہ میں بدل گئی اور پھر سیلمان عالیشان کا دور آیا تو ارطغرل کی چھوٹی سی ریاست دنیا کی واحد سپر پاور بن چکی تھی۔
اور پھر جلد ہی وہ وقت بھی آیا جب ارطغرل کا لگایا چھوٹا سا پودا اتنا تناور درخت بنا کہ اس نے تین براعظم اپنی لپیٹ میں لے لئے ۔ انہی خیالات میں غرق تھا کہ کار ایک گھاٹی کے گرد تنگ موڑ کا ٹ کر پہاڑ کے دوسری طرف پہنچی تو سامنے پیالہ نما وادی میں سوت کا چھوٹا سا شہر پھیلا نظر آیا دور شہر سے باہر ایک اونچی چوٹی پر چیڑ کے بلند و بالا درختوں کے درمیان ارطغرل کا مقبرہ تھا جس کے باہر ایک بہت بڑا سرخ ترک پرچم لہرا رہا تھا۔
مقبرے کے احاطے میں داخل ہوئے تو دروازے کے ساتھ ہی دائیں جانب پھولوں کے تختوں کے درمیان حلیمہ خاتون کی قبر نظر آئی جو ارطغرل کی بیوی اور سلجوقی سلطان علاءالدین کی بھتیجی تھی۔
ایک بہت خوبصورت باغیچے میں اس کے جاں نثاروں دوستوں اور کمانڈروں کی قبروں کے عین درمیان ارطغرل کے مقبرے کی چھوٹی سی خوبصورت گنبد نما عمارت تھی احاطے میں خوب چہل پہل تھی ، لوگ سینکڑوں کی تعداد میں تیرھویں صدی کے اس لیجنڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کےُلئے موجود تھے جو خلافت عثمانیہ کے قیام کا موجب بنا ۔
مقبرے کے داخلی دروازے پر دو لمبے تڑنگے داڑھی والے ترک نوجوان قدیم قبائیلی ترک لباس میں تلواریں تھامے پہرہ دے رہے تھے ،جب ہم مقبرے میں داخل ہونے لگے تو انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ دل پر رکھ کر اور سر کو خفیف سا خم دے کر ہمیں تعظیم دی ۔
اندر اس وقت ایک سرکاری ترک وفد فاتحہ خوانی کر رہا تھا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قبر کو سیلوٹ کر کے رخصت ہوگیا پتہ چلا کہ برصہ کا گورنر تھا
بہت سے لوگ دیواروں سے پشت لگائے قرآن پڑھنے میں مشغول تھے۔ فاتحہ پڑھتے ہوئے اچانک میری نظر قبر کے تین اطراف پڑے لکڑی کے چھوٹے خوبصورت بکسزboxes پر پڑی ، جن میں رکھی پلاسٹک کی تھیلیوں میں مختلف رنگوں کی مٹی نظر آ رہی تھی ۔ ان بکسز کی تعداد پچاس کے قریب تھی ۔
یہ ان تمام ملکوں کی مٹی تھی جن پر ارطغرل کی اولاد نے سات سو سال تک حکومت کی۔
مقبرے کی آہنی کھڑکیوں پر گولیوں کے بے شمار نشان تھے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد بلقان جنگ کی یاد گار ہیں جب یونانی فوجوں نے ارطغرل کے مقبرے کا محاصرہ کرنے کے بعد کئی دن تک بے دریغ گولیاں چلائی تھیں احترام ور عقیدت و محبت کی جو فضا ارطغرل کے مقبرے پر نظر آئی وہ بہت متاثر کن تھی ۔
لوگ خاموشی سے فاتحہ پڑھتے کچھ قبر کو بوسہ دیتے اور باہر نکل جاتے ۔ اتنے میں مقبرے کے گارڈز کی تبدیلی کی تقریب شروع ہوگئی پرانے گارڈز کی جگہ نئے گارڈز نے لے لی مقبرے پر حاضری کے بعد واپس برصہ جاتے ہوئے میں نے بیگم پر نگاہ ڈالی جو گم سم کسی سوچ میں تھی پوچھنے پر کہنے لگی کہ ہم نے سوت سے برصہ تک 126 کلو میڑ کا یہ دشوار گزار پہاڑی راستہ کار میں طے کیا ہے میں سوچ رہی تھی کہ عثمان غازی اور اس کے بیٹے اور خان کے گھوڑوں نے یہ کتنے دنوں میں طے کیا ہوگا اور کتنے دشوار مشکل راستوں سے گذر کر وہ برصہ پہنچے اور نو سال تک اس کا محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کیا ۔
میں بھی برصہ پہنچنے تک کچھ ایسی ہی سوچوں میں گم رہا کہ یا اللہ یہ تیرے کیسے پراسرار بندے تھے جنہیں تو نے اپنے پیارے نبی صلعم کی پیش گوئی کو پورا کرنے کے لئے پیدا کیا تھا۔
اقبال نے شائد ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: