Advertisement

ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید معلومات

ذیابیطس پاکستانیوں اور بھارتیوں میں بہت عام ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت زیادہ کاربوہائیڈریٹس (نشاستہ دار غذائیں) استعمال کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ذیابیطس تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی بڑی وجہ چینی (شوگر) کا حد سے زیادہ استعمال ہے۔
میں ذیابیطس کو “کاربوہائیڈریٹس کی عدم برداشت” (Carbohydrate Intolerance) کے طور پر بیان کرتا ہوں۔ یعنی یہ ایک ایسی غذا سے متعلق بیماری ہے جسے صرف خوراک کی اصلاح سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے، دواؤں سے نہیں۔
اگر کسی کو لیکٹوز عدم برداشت ہو تو آپ کیا مشورہ دیں گے؟ یہی نا کہ وہ دودھ پینا چھوڑ دے؟
اسی طرح، ذیابیطس دراصل نشاستہ دار غذاؤں کی عدم برداشت ہے۔
کاربوہائیڈریٹس مختلف اشیاء میں پائے جاتے ہیں جیسے چاول، گندم، چینی، تمام اناج، سبزیاں، گریاں، دالیں وغیرہ۔
ذیابیطس کے مریضوں کو وہ کاربوہائیڈریٹس استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جو خون میں شوگر کو تیزی سے بڑھاتے ہیں، جس سے انسولین کی سطح بھی اچانک بڑھ جاتی ہے۔
سب سے زیادہ نقصان دہ اشیاء گندم، چاول، اور چینی ہیں۔
تاہم، ذیابیطس کے مریض کچھ ایسے کاربوہائیڈریٹس استعمال کر سکتے ہیں جو آہستہ جذب ہوتے ہیں اور انسولین میں اچانک اضافہ نہیں کرتے۔
مثلاً: تمام سبزیاں (آلو کے سوا)، دالیں، چنے، بادام، دہی، کیفر، کینوا (quinoa)، لوبیا، اور موسمی پھل (اعتدال کیساتھ)۔
جب کوئی شخص جو زیادہ تر چاول کھاتا ہو، ذیابیطس میں مبتلا ہو جائے، تو اسے اکثر مشورہ دیا جاتا ہے کہ چاول چھوڑ کر براؤن روٹی کھائیں۔
لیکن حقیقت میں سفید اور براؤن روٹی میں کوئی خاص فرق نہیں۔ دراصل براؤن روٹی میں Amylopectin A زیادہ مقدار میں ہوتا ہے، جو بہت تیزی سے جذب ہوتا ہے۔
براؤن روٹی کا صرف ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں کچھ مقدار میں فائبر ہوتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر براؤن روٹی کا گلائیسیمک انڈیکس (GI) چینی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
آئیے ایک عام کھانے کی مثال لیتے ہیں:
اگر ہم دوپہر یا رات کے کھانے پر مدعو ہوں، تو اکثر لوگ ایک پلیٹ چاول، ایک تندوری روٹی، کچھ گوشت، عام سلاد (ڈریسنگ کے ساتھ)، اور مختلف قسم کی مٹھائیاں کھاتے ہیں۔
آخر میں چائے یا کافی بغیر چینی کے منگوا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کوئی نقصان دہ چیز نہیں لی۔
حالانکہ وہ پہلے ہی کھانے میں 20 سے 30 چمچ چینی کے برابر کاربوہائیڈریٹس لے چکے ہوتے ہیں!
اس کا حساب کچھ یوں ہے:
ایک پلیٹ چاول تقریباً 10،12 چمچ چینی (بطور گلوکوز) کے برابر ہوتی ہے، اور ایک تندوری روٹی میں مزید 9، 10 چمچ ہوتے ہیں۔
سفید اور براؤن روٹی میں صرف ایک چمچ چینی کا فرق ہے، جو کوئی خاص بات نہیں۔
گندم میں گلوٹین ہوتا ہے، جو لبلبے (pancreas) کے لیے نقصان دہ ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کے لیے خاص طور پر مضر ہو سکتا ہے۔
جب ہم کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں، تو وہ گلوکوز میں تبدیل ہو کر جسم کے تمام خلیوں اور جگر میں جذب ہو جاتے ہیں۔
لیکن جب ہم چینی (sucrose) کھاتے ہیں، تو وہ گلوکوز اور فرکٹوز میں تقسیم ہو جاتی ہے۔
فرکٹوز صرف جگر کے ذریعے ہی جذب ہو سکتی ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں اصل مسئلہ انسولین ریزسٹنس (انسولین کے خلاف مزاحمت) اور جسم میں انسولین کی زیادتی ہوتا ہے۔
جب خلیے گلوکوز سے بھر جاتے ہیں، تو اضافی گلوکوز چربی میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو جگر میں جمع ہو کر fatty liver پیدا کرتی ہے، اور انسولین ریزسٹنس کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
فرکٹوز، خاص طور پر چینی اور ہائی فرکٹوز کارن سیرپ سے حاصل ہونے والا، بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔
اگرچہ تمام پھلوں میں کچھ نہ کچھ فرکٹوز ہوتا ہے، لیکن ان میں فائبر بھی ہوتا ہے جو اس کے جذب ہونے کی رفتار کو کم کر دیتا ہے۔
پھلوں میں مفید اجزاء بھی ہوتے ہیں جیسے polyphenols، flavonoids، اور وٹامنز۔
تاہم، ذیابیطس کے مریضوں کو کچھ پھلوں سے احتیاط کرنی چاہیے جیسے پکا ہوا کیلا، انناس، آم، اور انگور۔
وہ دیگر موسمی پھل اعتدال سے کھا سکتے ہیں ، انار سب سے بہترین ہے۔
جو فرکٹوز ہم کھاتے ہیں، اس کا زیادہ تر حصہ triglycerides میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور کچھ حصہ یورک ایسڈ میں، جو گَٹھیا (gout) کا سبب بن سکتا ہے۔
یورک ایسڈ نائٹرک آکسائیڈ کو غیر فعال کر دیتا ہے، جس سے بلند فشار خون (high blood pressure)، دل کی بیماری، فالج، نسیان، اور الزائمر ہو سکتے ہیں۔
اضافی چربی خون کی نالیوں میں جمع ہو کر دل کے دورے اور فالج کا خطرہ بڑھاتی ہے۔
یہ ایک خطرناک چکر ہے جو آخر کار تباہی کا باعث بنتا ہے۔
اکثر لوگ غلط سمجھتے ہیں کہ ٹرا ئیگلیسرائیڈز چکنائی کھانے سے بنتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ زیادہ تر کاربوہائیڈریٹس سے بنتے ہیں، جس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔
بلند ٹرائیگلیسرائیڈز دل کی بیماری کے خطرے کو بہت بڑھا دیتے ہیں۔
خلاصہ:
چینی، خاص طور پر ہائی فرکٹوز کارن سیرپ، کئی دائمی بیماریوں جیسے ذیابیطس، گٹھیا، بلڈ پریشر، کینسر، اور دل کے امراض کی بنیادی وجہ ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: