اللہ تعالی نے اپنی بنائی ہوئی اس زمین پر مختلف مخلوقات کے ذریعے خوبصورتی لطافت نرمی اور روشنی بکھیر دی ہے ہر جاندار چاہے انسان ہو جانور اور پرندے اور درخت اور پودے ہوں سب اپنی اپنی جگہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ان تمام مخلوقات میں انسان اپنے علم و عقل اور زبان دانی اور قوت فیصلہ کی بدولت تمام مخلوقات پر فوقیت رکھتا ہے۔
انسان کو بھی باقی مخلوقات کی طرح جوڑے کی شکل میں پیدا کیا گیا یعنی مرد اور عورت ان دونوں کو اللہ تعالی نے مختلف رشتوں اور تعلقات میں جوڑ دیا اور ان تعلقات میں عزت محبت شفقت اور حفاظت کے جذبات اور ذمہ داریاں رکھی گئی مرد کو قوام بنایا گیا اسے باپ شوہر بھائی بیٹے کی حیثیت سے ذمہ دار بنایا گیا کہ وہ عورت سے محبت اور شفقت سے پیش ائے بلکہ اس کی حفاظت بھی کریں مگر بدقسمتی سے اکثر جگہوں اور ادوار میں مرد ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے۔
اگر ہم شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ مردوں کو دیکھیں تو وہ بھی کسی نہ کسی صورت میں عورت کا استحصال کر رہے ہیں عورت پر گھر اور باہر کی دوہری ذمہ داریاں ڈال کر ان کی صلاحیت اور محنت سے کم اجرت دے کر اگر ہم بات کریں دیہات کی تو وہاں عورتوں کی حالت بہت خستہ ہے پاکستان کی دیہی خواتین تعلیم اور صحت کے بہت سے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں مگر ان مسائل کے ساتھ وہ اپنی زندگی کی حفاظت سے بھی محروم ہے۔
پاکستان میں اج بھی ونی جیسی قبیح رسم بہت دھڑلے سے چل رہی ہے اس رسم کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں ونی کی رسم میں خون بہا کے طور پر قاتل کے گھر سے لڑکی دی جاتی ہے اور ونی کی جانے والی لڑکی کی عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
پانچ چھ سال کی معصوم بچیوں کے نکاح 50 60 سال کے بوڑھوں سے کر دی جاتی ہے اور ونی کی جانے والی عورتوں پر انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے ان سے ہر طرح کے کام لیے جاتے ہیں اور عورت کو اس حال میں پہنچانے والا اس کا اپنا محافظ باپ یا بھائی یا چاچو مامو ہوتے ہیں جو اپنی زندگیاں بچانے کے لیے اپنے گھر کی بیٹی اور بہن کو قربان کر دیتے ہیں۔
تعلیم کی کمی اور سماجی نا انصافی کا سب سے زیادہ بھینٹ عورت ہی کو چڑھایا جاتا ہے اس 21ویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں بھی پاکستانی عورت اپنے پیاروں کے ہاتھوں بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہے ایسی رسومات کی سب سے بڑی وضاحت دین سے دوری ہے کیونکہ ہمارے دین میں قصاص اور دیت کے قوانین صاف بتائے گئے ہیں جن میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ خون بہا میں ایک معصوم اور مظلوم لڑکی کی قربانی دی جائے یہ یہ شریعت میں حرام ہے کیونکہ ونی یا سوارہ کے تحت ہونے والے نکاح میں نہ تو لڑکی کی اجازت لی جاتی ہے نہ ہی اسے حق مہر دیا جاتا ہے لہذا ان تمام شرعی مقاصد کی بنا پر صلح کے طور پر لڑکی دینے کی رسم کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔
یہ ایک جاہلانہ اور ظالمانہ رسم ہے یہ بالکل حرام اور ناجائز ہے اس رسم کو ختم کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور کی بیداری بھی ضروری ہے تاکہ اس قبیح رسم کا خاتمہ کیا جا سکے