Advertisement

معاشرے کے خاموش مجرم کون ہیں؟

یہ نہایت اہم اورسنجیدہ سوال ہے۔ جس میں معاشرے کے سیکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں اور طبقات کا کردار پوشیدہ ہے۔ معاشرے کے وہ سب لوگ جو کسی کے جرم پر خاموشی طاری کیے ہوتے ہیں وہ بھی فروغ جرم کے سہولت کار ہوتے ہیں۔
معاشرتی نظام کی کمزوریوں کے سبب یہ واضح ہے کہ سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ فرسودہ روایات کے سامنے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب نفاذ قانون کے ادارے اپنی ذمہ داریوں سے لا پرواہ ہوجائیں ، نظام عدل کے منصب پر براجمان منصف بھی فیصلے بر وقت جاری نہ کرسکے۔ تعلیم کے میدان میں استاذ بھی اپنے ہونٹ سی لیں۔ دینی درسگاہ کے وارثین بھی ایسے معاملات کو اہمیت نہ دیں۔ مذہبی جماعتوں کے رہبر و رہنما اور دعوت دین سے تعلق رکھنے والے داعی بھی مصلحتوں کا شکار ہو جائیں تو ایسے میں کس کو مجرم گردانا جائے گا؟ جرم تو ایک فرد کرتا ہے مگر اس جرم کے خاموش مجرم بے شمار بنتے چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ میں مجرم حوصلہ پکڑتے ہیں۔متاثرین کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔نئی نسل خوف زدہ اور کمزور بنتی ہے اورمعاشرہ غیر محفوظ، بے حس اور ظلم پر خاموش ہو جاتا ہے۔
ہمارے معاشرہ کے کچھ پسماندہ علاقوں میں ، طاقتور مجرم کے خوف یا دباؤ کے سبب متاثرین اپنی زبان بند کرلیتے ہیں، مگر اسی علاقے کے وہ لوگ جو اس جرم کی حقیقت سے واقف ہو تے ہیں، ان میں بھی حق سچ کہنے کی جرات کسی نہ کسی سبب ختم ہوجاتی ہے اور وہ بھی مصلحتوں کے سبب خاموشی میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔
خاموش جرم پنپتا کیسے ہے؟ عمومی مشاہد ہ کے مطابق کئی اسبا ب ہوسکتے ہیں۔ خوف کی وجہ سے(مثلاً خاندان کی عزت یا دشمنی کا خطرہ لاحق ہوجائے گا)۔سماجی بے حسی کے سبب ( لوگ سمجھتے ہیں “یہ ہمارا مسئلہ نہیں”)۔قانونی نظام پر عدم اعتماد کے سبب کہ( لوگ سمجھتے ہیں کہ انصاف نہیں مل سکے گا )۔لا علمی کے سبب کہ ( لوگوں کو اب تک اپنے جائزحقوق کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہوتی ہیں)۔ قبائل یا برادریوں میں رسم یا رواج کی لاج کا دباؤ کہ( اگر ساتھ نہیں دیا تو قبیلے یا برادری سے نکال باہر کیا جائے گا اور دوسرا کوئی ہمیشہ کیسے قبول کرے گا) خصوصی طور پر سماجی رسم ورواج میں غلط فیصلوں کے باعث ایک پورا خاندان ظلم کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ جس میں عموما کم عمری کی شادی کا مسئلہ، خواتین کے حقوق، جہیز کا دباؤ، شادیوں میں وٹہ سٹہ، مرضی کی شادی ،غیرت کے نام پر قتل اور وراثت کے حق سے محروم ہونا ہے۔
یوں توخاموش جرم کی اقسام میں،گھریلو تشدد،جنسی ہراسانی یا بدسلوکی (بچوں کے ساتھ بھی)،نو عمر بچوں سے مشقت،نفسیاتی اور جذباتی استحصال،دفتر یا اداروں میں امتیازی سلوک،رشوت اور اندرونی کرپشن،تعلیم یا صحت کے حق سے محروم رکھنا بھی شامل ہے۔ لیکن کچھ قبائل اور کچھ برادریوں میں مخصوص جرائم کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔
حالانکہ سورہ بقرہ کی آیت 283 میں بتایا گیا ہے کہ “اور گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہوگا۔”یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم ظلم دیکھیں اور گواہی نہ دیں، تو ہم بھی مجرم ٹھہریں گے۔ اسی طرح سے مسلم شریف کی روایت کے مطابق نبی آخر الزمان علیہ السلام کا فرمان مبارکہ ہے کہ”تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا سمجھے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔” یہ حدیث بالکل واضح پیغام دیتی نظر آتی ہے کہ برائی یا جرم پر خاموشی ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ اور غالباً یہ قول کسی فقہی کا ہے کہ “حق بات پر خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے۔
کتب سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ عرفات کا میدان ہے ،ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام موجود ہیں ، سب سے بڑے رہبر و رہنما ، سب سے عظیم انسان منبر پر آتے ہیں اور حجتہ الوداع کے اس عظیم موقع پر اِن الفاظ کے ساتھ حجت تمام کردیتے ہیں !!! اور فرماتے ہیں اے”میرے لوگوں میں زمانہ جاہلیت کی تمام فرسودہ روایات کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتا ہوں ،اور تمہیں یہ تلقین کرتا ہوں کہ “عورتوں” اور غلاموں پر رحم کرنا اور ا ن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا”
پاکستان ایک ایسا مسلم معاشرہ میں جہاں اکثریت کلمہ گو مسلمانوں کی ہے۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں مختلف مکاتب فکر کی دینی درس گاہیں ہیں، جہاں اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مساجد اور منبر ومہراب بھی ہیں جہاں ہر جمعہ تذکیہ نفس اور عبادات کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں دعوت دین کے داعی بھی ہیں جو مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ جگہ جگہ ولی اللہ کے دربار اور پیر وں کی اصلاحی خانقاہیں بھی ہیں جہاں تذکیہ نفوس کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ یہ سب معاشرے کا وہ اہم طبقات ہیں۔ جو مجموعی طور پر اسلامی تعلیمات کے تناظر میں طاقت وروں کے آگے نہ جھکنے کا درس دیتے ہیں ، جہالت و گمراہی کے اندھیروں کوختم کرنے کی بات کرتے ہیں ،باطل کے سامنے حق و سچ کی گردان پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ بدی سے دور رہنے اور نیک اعمال کو اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں مگر معاشرے کی ایسی فرسودہ روایات کے خاتمہ کے لیے سب کہیں نہ کہیں مصلحتوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
نبی مکرم علیہ السلام کا وہ تاریخی اور سنہرے حروف سے لکھاجانے والا جملہ کہ “زمانہ جاہلیت کی تمام فرسودہ روایات کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں” یہ محض یہ ایک تاریخی جملہ نہیں، بلکہ ہر دور کے داعی دین کے لیے اہم ترین امتحان بھی ہے۔ جس پر روح بلالی کے ساتھ عمل کی ذمہ داری بدرجہ اولا اُن پر عائد ہوتی ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہی ہے کہ جرم تو ایک فرد کرتا ہے مگر اس جرم کے خاموش مجرم بے شمار بنتے چلے جاتے ہیں۔خاموش جرم صرف ایک شخص کو نہیں، پورے معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ جب فرسودہ اور گمراہ کن سماجی روایات کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔تو حق و سچ کی تمیز بھی اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ قبیح جرائم بھی جرم نہیں لگتے ہیں اور معاشرہ بربادی کی طرف چلاجاتا ہے۔ ایسے قبیح جرائم ، فرسوداہ روایات کے خاتمہ کے لیے حکومتی عہدیداروں، اسمبلی میں بیٹھے اراکین، قانون کے نفاذ کے اداروں اور علمائے کرام کو بھی مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: