پاکستانی عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کی ہر بنیادی ضرورت کو کاروبار بنالیا گیا ہے اور جیسی ضرورت ویساہی کاروبار کے اصول کے مطابق جو ضرورت جتنی شدید ہے اس کا کاروبار بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ تعلیم ،صحت،پانی، بجلی،پارکس اور ہاں رہایش ، اسے تو ضرورت سمجھا ہی نہیں جاتا ، ملک میں تعلیم کا کاروبار کرنے والے مالدار ہوتے ہیں ، پانی بجلی کا کاروبار کرنے والے بھی مالا مال ہوتے ہیں ، لیکن صحت اور لوگوں کو رہایش فراہم کرنے کا کاروبارکرنے والے نہ صرف مالا مال بلکہ مال میں نہاتے، دھوتے جاگتے سوتے ہیں مال ان کے لئیے ہر طرف سے ابلتا ہے۔ ہر شعبے میں عوام ہی کو پیسا جاتا ہے ، تعلیم میں سارا خرچ کرنے کے باوجود غلطی والدین کی ہوتی ہے، اسپتال میں بھاری خرچ کرکے مریض کو موت تک پہنچانے کے ذمہ دار بھی مریض کے رشتے دار ہوتے ہیں کیونکہ ان سے مریض کے داخلے کے وقت ایک دستاویز پر دستخط لئیے جاتے ہیں جس میں باریک باریک الفاظ میں ساری ذمہ داری داخل کرانے والا اپنے ذمہ لیتا ہے، اور اگر عملے کی کسی غلطی کی وجہ سے مریض کی موت ہوجائے یا اسے نقصان پہنچ جائے تو دستاویز پر دستخط کی بنیاد پر خاموش کرادیا جاتا ہے ۔ بلکہ میت بھی ضبط کرلی جاتی ہے ایک ایک پائی وصول کرکے میت دی جاتی ہے ۔اور اگر کوئی عدالت چلا بھی جائے تو پیشیاں ہی بھگتتا رہ جائے۔
یہ اکیلے واردات نہیں کرتے
پورا سسٹم ان کے ساتھ ہوتا ہے
اور اب بات کرتے ہیں سب سے بڑی مافیا یا سب سے بڑے مالدار طبقے بلڈرز کی، یہ اکیلے واردات نہیں کرتے پورا سسٹم ان کے ساتھ ہوتا ہے، کبھی کبھی تو جعلی پروجیکٹ کا اعلان کرکے ہی لوٹ لیا جاتا ہے ،کبھی پروجیکٹ کا اعلان ہوتا ہےاور مکمل ہی نہیں ہوتا اور بہت سے پروجیکٹ مکمل بھی ہوجاتے ہیں کامیابی سے لوگوں کو منتقل کردیا جاتا ہے۔اس عرصے میں اگر بکنگ کرنے والے قسط یا دوچار قسطیں جمع کرانے میں ناکام ہوجائیں تو جرمانے اور پلاٹ یا فلیٹ کی منسوخی بھی عمل میں آجاتی ہے ، جبکہ پروجیکٹ جعلی، نامکمل، یا تاخیر کا شکار ہوتو کسی پر کوئی جرمانہ ،جائداد کی ضبطی یا صارفین کو ہرجانے کی خبر نہیں آتی ۔
کراچی والے تو نسلہ ٹاور کے مارے ہوئے ہیں سولہ اداروں کی این اوسی کے بعد بننے والے پروجیکٹ کو ایک کم عقل کے حکم پر ڈھادیا گیا ، لوگ جمع پونجی سے بننے والے گھرسے محروم ہوگئے۔بلڈر کو بھی خوفزدہ کیا گیا ۔لیکن ان ہی دنوں میں اسی عدالتی نظام نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے بنی گالہ کے قبضے کو چند لاکھ میں جائز کردیا تھا، آج تک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ نسلہ ٹاور والوں نے کیا،قصور کیا تھا ،جھگڑا بلڈر کاتھا یا کسی اور کا ؟
اور اب جو کھیل جاری ہے وہ تو پہلے ہی عام تھا لیکن اب بھرپور اور اجتماعی طور پر کام بلکہ دھندا چل پڑا ہے ۔اور وہ پورے پورے پروجیکٹ کے مکینوں کو خوفزدہ کرکے مال بٹورنے کا عمل ہے ۔ پہلے پہل کبھی کسی ایک دو پروجیکٹس کو نشانہ بناکر مخدوش قرار دیا جاتا تھا لیکن اب کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے سند ھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی تقلید میں 62 مخدوش عمارتوں کی فہرست جاری کردی ہے، برسوں سے مقیم گلستان جوہر کے رہائشیوں کو کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کی حدود میں آنے والے43 رہائشی فلیٹس اور19 مکانات کو انسانی رہائش کے لیے ناقابل استعمال قرار دے دیا ہے اور فوری طور پر رہائشیوں کو انخلا کا مشورہ دیاگیا ۔
اخبار میں اشتہار
اس حوالے سے کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے اخبار میں ایک اشتہار شائع کیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ بلڈرز، ریذیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشنز/ یونینز اور مکینوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان انجینئرنگ کونسل (PEC) سے رجسٹرڈ ایک مستند اور معروف اسٹرکچرل انجینئر کی خدمات حاصل کریں تاکہ ایک جامع ساختی جائزہ کروایا جاسکے۔ ایک تفصیلی رپورٹ، جس میں عمارت کو رہائش کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہو، اس نوٹس کے اجرا کی تاریخ سے 7دن کے اندر اس دفتر میں جمع کروانا لازمی ہے۔
بھگدڑ اور خوف کا عالم
یہ سات دن تو بہت دن قبل گزر چکے لیکن بھگدڑ اور خوف کے عالم میں کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جو عمارت انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں وہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ انجینئیر کی رپورٹ سے اچانک انسانوں کے رہنے کے قابل کیونکر ہوجائے گی، صاف ظاہر ہے کہ پیسا پھینک تماشا دیکھ کے ذریعہ چمتکار ان سب مخدوش عمارتوں کو مضبوط کردے گا ۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ سات دن میں مخدوش عمارت مضبوط کیسے ہو جائے گی ،اگلا سوال تو بعد میں آئے گا کہ ان عمارتوں کو رہایش کے قابل قرار دینے کا سرٹیفیکیٹ کس نے دیا تھا۔ رہایش کی اجازت دیتے ہوئے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ عمارت کب تک رہایش کے قابل رہے گی اور کب مخدوش ہوجائے گی ، اگر نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔اب مکینوں اور رہائشییوں کی یونین کو ذمہ دار قرار دینے کا کیا جواز ہے ،وہ تو روزمرہ امور چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہے عمارت کے مخدوش یا مضبوط ہونے کا فیصلہ اس پر کیوں ڈالا جائے۔
دھندے میں شریک
اس سارے دھندے کے بہت سے شرکا ہیں اولین نمبر پر تو بلڈرز ہیں وہ ہرقسم کی دونمبری کرتے ہیں اور پھنسنے کی صورت میں اپنی تنظیم آباد کی پناہ حاصل کرتے ہیں۔ عمارت کی مضبوطی،مدت استعمال، مخدوش ہونے کی مدت اور فیصلے سے عوام کا کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ سارے کام بلڈر، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو سندھ حکومت کے قبضے میں آنے کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول آتھارٹی بن چکی ہے ،کنٹونمنٹ بورڈ، کے ڈی اے وغیرہ سمیت درجن بھر ادارے ایک دوسرے کی ملی بھگت سے کرتے ہیں ، اب تو ہر ادارے نےایجنٹ بنا لئیے ہیں ،جو اس کے دفتر کے باہر ہی ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہوتے ہیں ، ادارے کے افسران کو رشوت کا مال پہنچاکر سب اچھا ہے کی رپورٹ حاصل کرلیتے ہیں ۔شاید اس معاملے میں بھی ایجنٹ کام آئیں گے۔
کنٹونمنٹ کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ آگ بجھانے کے تمام ضروری اقدامات کو فوری طور پر لاگو کیا جانا چاہیے، ان میں فائر ایگزٹس کی تنصیب، آگ بجھانے والے آلات (فائر ایکسٹنگوئشرز) کی فراہمی اور متعلقہ کوڈز اور معیارات کے مطابق دیگر ضروری آگ سے بچاؤ کے نظام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک لائسنس یافتہ الیکٹریکل انجینئر سے ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانا ہوگا، جس میں یہ تصدیق کی گئی ہو کہ عمارت کی تمام الیکٹریکل وائرنگ محفوظ ہے اور متعلقہ معیارات کے مطابق ہے۔
سوال یہ ہے کہ عمارت رہائشیوں کے حوالے کرتے وقت یا کمپلیشن سرٹیفیکیٹ دیتے وقت کنٹونمنٹ،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور حکومتی اداروں نے ایسا سرٹیفیکیٹ دیا تھا اور اس کی مدت کتنی تھی۔پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس تمام جائزے سے منسلک تمام اخراجات بلڈر، ریزیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن/ یونین اور مکینوں کو برداشت کرنے ہوں گے۔ نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوام الناس اور فیصل کنٹونمنٹ بورڈ کے مکینوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ عوام کے تحفظ اور بہبود کے مفاد میں اس دفتر کی جانب سے اپنے دائرہ اختیار میں مختلف عمارتوں کا معائنہ کیا گیا ہے۔ یہ معائنہ مون سون سیزن سے قبل احتیاطی اقدام کے طور پر کیا گیا تھا۔ معائنے کے دوران، بعض عمارتوں کی ساختی مضبوطی کے حوالے سے سنگین تحفظات کی نشاندہی کی گئی اور آگ بجھانے کے حفاظتی اقدامات میں کمی پائی گئی۔
سنگین تحفظات
یہ سنگین تحفظات ایک انجینئیر کی رپورٹ سے کیسے دور ہوجائیں گے ۔اسی طرح نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ “مشاہدہ کیا گیا مسائل میں متعدد دراڑیں، کھلا اور زنگ آلود لوہا (کنکریٹ کور ہٹانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے)، پانی کا اخراج، نامناسب سینیٹری فٹنگز اور جاری رساؤ شامل ہیں، یہ سب ناقص دیکھ بھال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ حالات ممکنہ طور پر ساختی عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔”
’’ماہرین‘‘ کی نظر
جی بالکل ایساہی ہے لیکن جب عمارت کو سرٹیفکیٹ جاری کیا جارہا تھا تو کیا ان ناقص تعمیرات اور نامناسب سینیٹری فٹنگز پر اس وقت ان “ماہرین ” کی نظر نہیں پڑی تھی۔اور اب جو رپورٹ لکھی گئی ہے وہ کنٹونمنٹ کے کون سے انجینئیرز نے تیار کی ہے اور وہ کس ادارے سے سرٹیفائیڈ ہیں؟
کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کی جانب سے جاری کردہ خطرناک عمارتوں کی فہرست میں پہلے نمبر پرپپرانی کفرٹس، بلاک9، گلستان سی جوہر، (2) الموصورٹاور، بلاک 12، گلستان جوہر، (3) کلاسک ہائٹس، بلاک12، گلستان جوہر، (4) بمبیا آرکیڈ،بلاک12، گلستان جوہر، (5) بمبیا ہائٹس، بلاک12، گلستان جوہر، (6) اون اپارٹمنٹ، بلاک12، گلستان جوہر، (7) فراز ویو، بلاک 13، گلستان جوہر، (8) کورنش کمفرٹس، بلاک 13، گلستان جوہر، (9) روزگارڈن، بلاک 13، گلستان جوہر، (10) راڈو لیوینا، بلاک 13، گلستان جوہر، (11)کریسنٹ ویو، بلاک 13، گلستان جوہر، (12)اسٹار بلیسنگ، بلاک 13، گلستان جوہر، (13) فورٹ کارنر، بلاک14، گلستان جوہر، (14) سنگاپور ٹاور، بلاک14، گلستان جوہر، (15) شالیمار شاپنگ سینٹر، بلاک17، گلستان جوہر، (16)ہنید سٹی، بلاک 17، گلستان جوہر، (17) اقرا کمپلیکس، بلاک 17، گلستان جوہر، (18) نعمان گرینڈ سٹی، بلاک 17، گلستان جوہر، (19) منیر ہیون، بلاک 17، گلستان جوہر، (20) ہارون رائل سٹی، بلاک 17، گلستان جوہر، (21) رابعہ سٹی، بلاک 18، گلستان جوہر، (22) بلیز پیراڈائز، بلاک 18، گلستان جوہر، (23) جوہر اسکوائر، بلاک 18، گلستان جوہر، (24) بلیس ہائٹس، بلاک 18، گلستان جوہر، (25) بیت الحنا، بلاک 18، گلستان جوہر، (26) شمائل گارڈن، بلاک 19، گلستان جوہر، (27) سپریم کیسل، بلاک 19، گلستان جوہر، (28) گلشن کمپلیکس، بلاک 19، گلستان جوہر، (29) فرحان پیراڈائز، بلاک 19، گلستان جوہر، (30) فریال پیراڈائز، بلاک 19، گلستان جوہر، (31) ویلکم سینٹر، بلاک 19، گلستان جوہر، (32)ویل کم ٹیرس، بلاک 19، گلستان سی جوہر، (33) لاکھانی ہائٹس، بلاک 19، گلستان جوہر، (34) سائمن ویو، بلاک 19، گلستان جوہر، (35) کلاسک ویو، بلاک 19، گلستان جوہر، (36) پاک ایونیو، بلاک 19، گلستان جوہر، (37) وی آئی پی اپارٹمنٹ، بلاک 19، گلستان جوہر، (38) فرحان ٹاورز، بلاک20، گلستان جوہر، (39) نعمان ایونیو، بلاک20، گلستان جوہر، (40) سنی پرائیڈ، 7/118، بلاک20، گلستان جوہر، (41) ایمپائر سینٹر، بلاک 20، گلستان جوہر، (42) فراز ایونیو، بلاک20، گلستان جوہر، (43) بلیز ٹاور، بلاک20، گلستان جوہر،(44) مکان نمبر 51 ڈرگ روڈ، (45) مکان نمبر A-106، ڈرگ روڈ، (46) مکان نمبر 8/7، ڈرگ روڈ، (47) مکان نمبر1/10، ڈر گ روڈ، (48) مکان نمبر C/12،ڈر گ روڈ، (49) مکان نمبر 6/113، ڈر گ روڈ، (50) مکان نمبر 10/116، ڈر گ روڈ، (51)مکان نمبر10/117، ڈر گ روڈ،(52)مکان نمبر 219/26، ڈر گ روڈ، (53)مکان نمبر 8/20،ڈر گ روڈ، (54)مکان نمبر26، ڈر گ روڈ، (55)مکان نمبر30، ڈر گ روڈ، (56)مکان نمبر 41، ڈر گ روڈ، (57)مکان نمبر 769/26، ڈر گ روڈ، (58)مکان نمبر 244/26، ڈر گ روڈ، (59)مکان نمبر 2/113، ڈرگ روڈ،(60) مکان نمبر 232، ڈر گ روڈ،(61) مکان نمبر 232،ڈر گ روڈ ، (62) مکان نمبرA-107، ڈر گ روڈشامل ہے۔
’’کنٹونمنٹ بورڈ ذمے دار نہیں ہوگا‘‘
کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے نوٹس کے زریعے مزید کہا ہے کہ یہ بات سخت تشویش کے ساتھ نوٹ کی گئی ہے کہ انفرادی نوٹسز اور عوامی اعلانات کے ذریعے جاری کردہ سابقہ انتباہات اور یاد دہانیوں کے باوجود، متعلقہ بلڈرز، ایسوسی ایشنز/ یونین اور مکینوں کی جانب سے ان عمارتوں کی بگڑتی ہوئی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی ہے۔مندرجہ بالا ہدایات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں، اگر جان و مال کے نقصان سمیت کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو کنٹونمنٹ بورڈ فیصل ذمہ دار نہیں ہوگا۔ غفلت یا کارروائی میں ناکامی کی وجہ سے مکمل ذمہ داریاں متعلقہ بلڈر، ایسوسی ایشن/ یونین اور رہائشیوں پر عائد ہوگی۔
یہ خیال ’’اب‘‘ آیا؟
اسی حوالے سےگلستان جوہر کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کے رہائشی، معروف قانونی ماہر اور اسلامک لائیرز فورم کے انفارمیشن سیکرٹری عامر ایڈووکیٹ نے اخبارات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیاری کے سانحہ کے بعد اور مون سون کی بارشوں سے قبل فیصل کنٹونمٹ بورڈ کویہ خیال آگیا ہے کہ ان کی حدود میں کون سے فلیٹس یا رہائشی گھر جو مخدوش ہوگئے ہیں ۔ لیکن کیا یہ بہتر ہوتا کہ جب ان 62عمارتوں کی تعمیرات ہورہی تھیں تو اس وقت یہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتیں۔
دو نمبریاں
عامر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ کراچی میں جتنی بھی رہائشی عمارت یا ہاؤسنگ پروجیکٹ بنتے ہیں اس میں تعمیر کرنے والے بلڈرز جتنی بھی دو نمبریاں کرتے ہیں وہ اپنا پیسا بچانے کے لیے کرتے ہیں اور ناقص میٹریل استعما ل کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ بلڈرز سیوریج کی لائنوں اور سسٹم کو درست طریقے سے نصب نہیں کرتے ہیں اور نکاسی آب کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان پروجیکٹ میں رہائشیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سب پہلے سے طے منصوبہ بندی ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ناکہ جب کراچی میں کوئی بڑا سانحہ رونما ہوجائے تو اس کے بعد تمام ادارے اپنے آپ کو بچانے کے لیے عارضی طور پر متحرک ہوجاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی نیا سانحہ ہوجاتا ہے تو پھر وہ تمام چیزیں ایک طرف ہوجاتی ہے اور پھر سے فلیٹس میں رہائش پذیر کراچی کا شہری نئی پریشانی سے گزر رہا ہوتا ہے۔
اقرا کمپلیکس کے ایک رہائشی نے بتایا کہ کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کے حدود میں پارکس ہیں لیکن اجڑے ہوئے، رات کے اندھیرے میں جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ اور آوارہ لڑکوں اور لڑکیوں کی ملاقات کی جگہ بنی ہوئی ہے۔بیت الحنا کے رہایشی نے اطلاع دی کہ یونین کا اجلاس بلایا گیا ہے اخراجات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے ،اور انجینئیرز سے بھی رابطہ کیا گیا ہے ،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کنٹونمنٹ تک معقول رقم پہنچانے کا بندوبست کرکے نوٹس واپس یا مضبوطی سرٹیفیکیٹ، کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کے علاقے میں سڑکیں ،فٹ پاتھ اور پلوں کے نیچے، گرین بیلٹس سمیت تمام جگہوں پر کنٹونمنٹ کے عملے کی ملی بھگت سے تجاوزات قائم ہیں خصوصا گلستان جوہر کسی مضافاتی بستی کا منظر پیش کررہا ہے، پتھارے ،ٹھیلے لگانے کے الگ پیسے مختص ہیں ،کنڈا لگانے کے الگ پیسے، خصوصی چھاپوں میں وہی ٹھیلے اور پتھارے اٹھا لیے جاتے ہیں ،اور واپس کرنے کے الگ پیسے لیے جاتے ہیں ، پورے گلستان جوہر میں کروڑوں کا دھندا چلتا ہے ۔اور سارا کنٹونمنٹ کے نام پر چلتا ہے ۔
وصولیاں جاری، کاروبار کی ضمانت
رہائشی کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ کا عملہ وصولیاں کرتا ہے اور کاروبار جاری ہے ،جبکہ کچرا ٹھکانے لگانے کے کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کی گاڑیاں فلیٹوں سے الگ وصولی کرکے کچرا اٹھاتی ہیں ، یہ فی پروجیکٹ پندرہ سو سے تین ہزار تک وصول کرتے ہیں ،جبکہ کنٹونمنٹ رہائشیوں سے پراپرٹی ٹیکس الگ وصول کررہا ہے، ٹیکس نہ دینے والوں کو دھمکی آمیز نوٹس جاری کئیے جاتے ہیں، کنٹونمنٹ بورڈ فیصل اور منیر ہیون کے ہائشی کا کہنا ہے کہ جب یہ 62 عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں تو اس وقت فیصل کنٹونمنٹ بورڈ نے ان بلڈرز یا گھروں کے مالکان کو متنبہ کیوں نہیں کیا تھا آج انھیں مخدوش عمارتیں نظر آرہی ہے جبکہ فیصل کنٹونمنٹ بورڈ کے حدود میں رہنے والے رہائشیوں کو کوئی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں ہیں۔
سڑکیں، پارک مکمل تباہ
پارکس سڑکیں مکمل طور پر تباہ حال ہیں سیوریج صفائی ستھرائی کا فقدان اور تجاوزات کی بھر مار ہے فیصل کنٹونمنٹ بورڈ کی انتظامیہ کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان کی تمام کوششیں اپنی حدود میں آنے والے رہائشیوں کو ڈرا دھمکا کے پراپرٹی ٹیکس وصول کرنا شامل ہے۔
لاکھانی ہائٹس کے ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ غیر قانونی رہائشی فلیٹس آسمان سے تیارہوکر زمین پر نہیں آتے ہیں جب پہلی اینٹ لگتی ہے تومتعلقہ ادارے کیوں حرکت میں نہیں آتے ہیں غیر قانونی تعمیر گراؤنڈ پرہوتی ہے سب کے سامنے اوپن ہوتی ہے پہلے اس ناقص تعمیرات کے ذمہ داروان کو تو پکڑ ا جائے جنہوں نے عوام کی محنت کی کمائی کو برباد کیا ہے ۔
مکینوں نے کروڑوں روپے کے فلیٹ خریدے تعمیرات کی اجازت دینے والے اداروں اور تعمیر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے،کراچی میں جب فلیٹ کی تعمیرات ہورہی ہوتی ہے تو اس وقت ان سے کوئی نہیں پوچھتا ہے پہلے یہ افسر لوگ فائلوں پر دستخط کر کے اجازت دے دیتے ہیں کہ جاؤ جا کر دس منزلیں بناؤ، بعد میں سارا بوجھ رہائشیوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ایک طرف ٹیکس لیا جاتا ہے اور اس کے عوض خدمات کا کوئی وجود نہیں۔ پورے کنٹونمنٹ کے علاقے میں پیسے لے کر عوامی راستے بند کئیے جاتے ہیں ۔
ٹھیلے، کیبن، اسٹال کے پیسے الگ، کنڈے کے علیحدہ
جوہر چورنگی کے دکانداروں اور ٹھیلے والوں نے بتایا کہ ہر ٹھیلے، کیبن، اسٹال وغیرہ کے لئیے جگہ پر بیٹھنے کے چھ سے آٹھ ہزار روپے ایک اہلکار لے جاتا ہے جبکہ قریبی پارک سے بجلی کا کنڈا دیا گیا ہے وہ دوہزار فی کس کے حساب سے دیا گیا ہے ،اسی طرح علاقے سے کچرا اٹھانے کا کام ہے، کنٹونمنٹ ٹیکس وصول کرتا ہے لیکن سہولت کے علیحدہ وصول کیے جاتے ہیں ، مختلف پروجیکٹس سے پندرہ سوسے دو ہزار روپے تک صرف کچرا اٹھانے کے الگ سے وصول کیے جاتے ہیں۔ ایک پروجیکٹ میں دوسے چار بلاک ہوتے ہیں کسی کسی میں زیادہ بھی ہوتے ہیں، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صرف کچرا اٹھانے کے کاروبار میں کتنی کمائی ہے۔ اور یقینا یہ رقم اور ٹھیلوں ،کیبنوں سے وصول کی جانے والی رقم کنٹونمنٹ کے خزانے میں تو نہیں جاتی ہوگی ۔یہ سارا مال اہلکاروں کی جیب ہی میں جاتا ہے ،اور افسران بھی نااہل تو نہیں ان کو بھی پتا ہے کہ کیا چل رہا ہے لہٰذا ان کا حصہ بھی ” ایمانداری” سے پہنچانا اس فرض شناس عملے ہی کے ذمے ہوتا ہے۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ کنٹونمنٹ کے زیر انتظام گلستان جوہر کے علاقوں میں کوئی سڑک سلامت نہیں اور گاڑیوں کے لئیےکوئی راستہ نہیں ،لوگ ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں لیکن سرکار کی جانب سے کھڑے کئیے گئے ٹھیلے اور کیبن، ان سے خریداری کرنے والوں کی گاڑیاں اور موٹر سائکلیں راستہ بند کردیتی ہیں، فٹپاتھ پر کرسیاں میزیں سرشام بچھادی جاتی ہیں ان کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے مجموعی طور پر گلستان جوہر اور فیصل کنٹونمنٹ کے علاقوں میں سروس لین کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے ،کہیں مسجد کے نام پر اور کہیں سیکورٹی کے نام پر راستہ بند ہے ،جوہر چورنگی سے حبیب یونیورسٹی تک سروس لین میں جا بجا رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک مین روڈ پر الٹا چلتا ہے ،اب پورے کنٹونمنٹ اور کے ایم سی کے علاقے میں ،کوئی فٹپاتھ خالی نہیں سب ٹھیکے پر چل رہے ہیں ۔
اس صورتحال پر بساط نے بلڈرز کی تنظیم آباد سے موقف جاننا چاہا تو آباد کے ذمہ داران نے بتایا کہ کنٹونمنٹ کے پاس اس جائزے کے لئیے کوئی ٹیکنیکل مہارت نہیں ہے بلکہ 62 عمارتوں کو نوٹسز کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا ،اس کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔
OOOO
شہری ادارے شہریوں کے دشمن کیوں ؟
















