طالبان نے پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں توسیع پر اتفاق کرلیا گیا ہے تاہم اس امر کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی کب تک رہے گی اور جنگ کب دوبارہ شروع ہوجائے گی ۔ جنگ بندی میں طرفین کی سنجیدگی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی طرف سے ایک جونیئر نائب وزیر کو مذاکرات کے لیے بھیجا گیا، جس کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہے جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع نے جلتی پر تیل پھینکنے کے مصداق ایسے بیانات دئے جن سے لڑائی نہ ہوتے ہوئے بھی ہوجائے ۔ یہ عارضی جنگ بندی میزبان ملک ترکی کی مرہون منت ہے جس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے طرفین کو فوری جنگ کرنے سے روک دیا۔
ایک عام پاکستانی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ آخر ایسا ہوا کیا ہے کہ وہ طالبان جو کہتے تھے کہ پاکستان کا دفاع ہمارا دفاع ہے ، وہ اچانک کیوں پاکستان کے خلاف ہوگئے ہیں اور پاکستان کے دشمنوں کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ہیں ۔ اور افغانستان سے مسلسل پاکستان کے خلاف پراکسی وار جاری ہے ۔ دیکھنےمیں یہ بات انتہائی اصولی لگتی ہے کہ پاکستان نے افغان عوام کا ساتھ دیا اور اب افغان حکومت میں بیٹھے طالبان کو احسان فراموشی نہیں کرنی چاہیے ۔ یہ سب کچھ اس لیے درست لگتا ہے کہ ایک عام پاکستانی کو صرف آدھی حقیقت معلوم ہے ۔ یعنی اتنی ہی باتیں اسے معلوم ہیں جنہیں ان تک فلٹر کرکے پہنچنے دیا گیا ہے ۔ آئیے پس منظر کو جانتے ہیں، پھر بات واضح ہوجائے گی۔ ۔
افغانستان پر روسی جارحیت کے دوران جمعیت علماء اسلام کے دونوں گروپوں فضل الرحمٰن اور سمیع الحق کے تعاون سے پاکستان میں پشتو بولنے والے علاقوں میں مدارس کا جال پھیلا دیا گیا ۔ یہ مدارس صرف بلوچستان کی پشتون بیلٹ یا خیبر پختون خوا تک محدود نہیں تھے بلکہ کراچی تک میں قائم کیے گئے تھے تاکہ یہاں پر موجود افغانوں اور پختونوں کے بچوں کو اس کے تحت لایا جاسکے ۔ افغان جنگ میں انسانی وسائل کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مدارس تھے ۔ جب طالبان کے نام سے ایک نیا گروپ کھڑا کیا گیا تو ان ہی مدارس کے اساتذہ کی زیر نگرانی سارے رنگروٹ بھرتی کیے گئے ۔ اب افغانستان کی صورتحال دیکھتے ہیں ۔ افغانستان کا جنوبی علاقہ جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ ہے اور جہاں جہاں پشتو زبان بولی جاتی ہے وہاں وہاں یہ طالبان چھائے ہوئے ہیں مگر شمالی علاقہ جو تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ ہے جہاں پر دری زبان بولی جاتی ہے ۔ یہاں پر ان ہی ممالک کے اثرات ہیں ۔ یہاں پر طالبان کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اسی طرح ایران کے ساتھ کا سرحدی علاقہ جہاں پر فارسی بولی جاتی ہے وہ بھی طالبان کے اثر میں نہیں ہے ۔ اس طرح سے طالبان کے زیر اثر علاقے محدود ہیں ۔ شمالی علاقوں کی صورتحال تو یہ ہے کہ جب میں اور طارق ابوالحسن طالبان کی موجودہ حکومت کے قیام کے فوری بعد افغانستان گئے ، تو بدخشاں میں طالبان کے نام پر آغا خانی موجود تھے ، جن کا مدارس تو دور کی بات ہے اسلام سے بھی کیا تعلق ہے ؟ بلخ میں مزار شریف کا شہر تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم دبئی میں گھوم رہے ہیں ۔ صاف ستھرا سا شہر اور بلا کسی برقعے کے ہنستی مسکراتی خواتین کے غول بغیر کسی مرد نگراں کے ۔ اس سے ان علاقوں میں طالبان کے اثر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مدارس سے پڑھے ہونے کی بناء پر ان کا دماغ ایک مخصوص سانچے میں ڈھل گیا ہے ۔ شیعہ مسلک تو دور کی بات ہے سنیوں کے دیگر مسالک کو بھی یہ قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں ۔ افغانستان میں بریلوی مسلک کے ماننے والے تو موجود نہیں ہیں مگر اہلحدیث ضرور پائے جاتے ہیں ۔ اہلحدیث مسلک پر وہاں عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور ان کے علماء کی لگاتار ٹارگٹ کلنگ بھی ہوئی ہے ۔ اس سے طالبان کا اثر مزید محدود ہوا ۔ افغانستان کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی زیر قیادت شمالی اتحاد کی تنظیم نو کی گئی ہے اور اس کا نیا نام National Resistance Front of Afghanistan رکھا گیا ہے ۔ اس کا باقاعدہ قیام اگست 2021 میں ہی عمل میں آگیا تھا یعنی طالبان حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ۔ پنج شیر کا علاقہ پہلے ہی دن سے طالبان کے قابو میں نہیں آیا تھا ۔ تاجکستان ، ازبکستان اور ایران سے ملحقہ سرحدی علاقوں کی صورتحال پہلے ہی سامنے ہے ۔
ایک بات اور سمجھنے کی یہ ہے کہ کسی بھی گروہ کے برسراقتدار آتے ہی خوشامدی اور مجرمانہ ذہنیت کے ابن الوقت لوگ بھی ساتھ آجاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہی لوگ چھا جاتے ہیں ۔ طالبان کے ساتھ پہلے ہی یہ مسئلہ ہے کہ یہ محدود ذہنیت کے حامل لوگ ہیں اور ان کے نزدیک اسلام صرف وہی ہے جسے یہ لوگ سمجھتے ہیں ۔ اس پر مجرمانہ ذہنیت کے خوشامدی لوگوں کی شمولیت نے حالات مزید بگاڑ دیے ۔قندوز میں ہم نے اپنے میزبان کے گھر میں رات کے کھانے کے دوران پوچھا کہ قندوز میں جب طالبان نے قبضہ کیا تھا تو کیا لوٹ مار بھی ہوئی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ہی گھر سے اسلحہ اور قیمتی سامان وہ لوگ تلاشی کے دوران لے گئے تھے ،اور نئی گاڑی بھی لے گئے تھے اور طالبان کے بڑوں تک کیس پہنچنے اور بندے کی نشان دہی کے باوجود گاڑی بازیاب نہیں ہوسکی ۔
اسی طرح میں نے کابل میں لوگوں سے پوچھا کہ سرکاری دفاتر میں کام کرانے کے لیے جب وہ جاتے ہیں تو رشوت تو نہیں طلب کی جاتی تو انہوں نے بتایا کہ کھانا مانگنا ایک عام رواج ہے کہ ان کی تنخواہیں ہیں نہیں اور نہ ہی ان طالبان کی کوئی سرکاری پوزیشن ہے ۔
وی آئی پی پروٹوکول بھی ہم نے وہاں دیکھا تھا کہ ایک عام مولوی کے ساتھ امارات اسلامی کا جھنڈا لگائے کم از کم دو تین ڈبل کیبن گاڑیاں ہوتیں اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے سامنے آسکے یا راستہ نہ دے ۔ ورنہ ان کا ہر لفظ قانون ہے ۔ اسی طرح سرکاری عمال کے دفاتر کے باہر بھی زبردست پہرہ ہوتا تھا ۔ کابل میں ہی جب ہم وزیر خارجہ امیر متقی کے دفترافغانستان صحافیانہ کام کرنے کا اجازت نامہ وصول کرنے گئے تو ایسا لگا تھا کہ جیسے کسی بکتر بند میں آگئے ہیں ۔ بھرپور جامہ تلاشی اور تعارف کے بعد بھی عمارت کے اندر جا کر کئی جگہ تلاشی کے بعد بھی اس دفتر کے اندر جہاں سے اجازت نامہ وصول کرنا تھا ، صرف ایک فرد کو اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی ۔ اس مختصر صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں پر بھی صورتحال کوئی قابل رشک نہیں تھی ۔ البتہ پورے افغانستان میں امن و امان کی صورتحال اتنی ہی بہترین تھی جتنی عرب امارات میں ہے۔
اب دوبارہ سے صورتحال کو دیکھتے ہیں ۔ شمالی علاقوں میں طالبان کی اپنی نفری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جوں جوں سرحد کی طرف بڑھتے جائیں ، یہ نفری مزید کم ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ بدخشاں میں آغا خانی طالبان کی نمائندگی کررہے تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کی ان علاقوں میں گرفت مزید کم ہوئی ہے ۔ پنج شیر میں پہلے دن سے طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت جاری ہے جو اب دیگر علاقوں تک پھیل چکی ہے ۔ جنوبی افغانستان میں پہلے ہی دن سے امریکی پیدا کردہ داعش سرگرم ہے ۔ مرے پر مارے شاہ مدار کے مصداق طالبان میں بھی اب گروہ بندیاں واضح ہوگئی ہیں اور پاکستانی حمایت یافتہ حقانی گروپ کو اب سائیڈ لائن کردیا گیا ہے ۔ افغان آبادی کا 65 فیصد حصہ 24 برس یا اس سے کم عمر ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں جنریشن زی افغان آبادی کا 65 فیصد ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جس نے 2001 میں امریکی قبضے کے بعد ہوش سنبھالا ۔ امریکی قبضے کے دوران افغانستان پر بھارتی اثر و رسوخ اپنے عروج پر تھا ۔ بھارتی اثرات کا مطلب پاکستان دشمنی ہے ۔ انہیں یہی پڑھایا گیا ، سمجھایا گیا کہ امریکیوں کو پاکستان نے فوجی اڈے دیے ہیں جس کی مدد سے وہ افغانوں کو قتل کررہا ہے ۔
مندرجہ بالا نکات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کابل کے برسراقتدار گروہ سمیت پورے افغانستان میں پاکستان کے کے لیے کوئی اچھے جذبات نہیں ہیں ۔ مگر اس کا پاکستان کے ساتھ جنگ کا کیا تعلق ہے ۔ کیا امریکا طالبان کو سبق دینا چاہتا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو جنگ کے علاوہ اور بھی مزید کئی طریقے ہیں جو زیادہ موثر ہیں ۔ اصل میں افغانستان کے ساتھ جنگ طالبان سے زیادہ پاکستان کا بازو موڑنے کے لیے ہے ۔
پاکستان کا طالبان حکومت سے شکوہ ہے کہ وہ افغان سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان کو پناہ دیے ہوئے ہے اور ان ہی کی شہ پر وہ مسلسل پاکستان پر حملہ آور ہیں ۔ پاکستان نے ان ہی شرپسندوں کے خاتمہ کے لیے افغانستان کے اندر کابل تک سرجیکل اسٹرائیک کیں ۔ پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر کسی مستقل پالیسی کا فقدان ہے ۔ آج کل خیبر پختون خوا کے نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا ایک کلپ وائرل ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ” ایک بندہ آتا ہے اس کا ایک فارمولا ہوتا ہے وہ ان کو مجاہدین اور ہیرو بناتا ہے ، دوسرا بندہ آتا ہے وہ ان کے خلاف آپریشن کرتا ہے ، تیسرا بندہ آتا ہے وہ یہاں پر ان کو دوبارہ آباد کرنے کا سوچتا ہے ، چوتھا بندہ آتا ہے وہ دوبارہ آپریشن کرتا ہے ۔ “
یہ تحریک طالبان پاکستان وہی گل بہادر گروپ ہے نا جسے پہلے حکومت نے گڈ طالبان کا نام دے کر قائم کیا تھا ۔ پھر حکومت نے انہیں ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے خلاف آپریشن کیا ۔ جب پاکستان سے ان کا خاتمہ ہوگیا تو گزشتہ دور حکومت میں انہیں سوات اور دیگر علاقوں میں دوبارہ سرکاری سرپرستی میں لا کر بسا دیا گیا اور اب پھر سے ان کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے ۔ اور ان ہی کے خاتمہ کے لیے افغانستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی گئیں ۔ جس کی وجہ سے افغان فوجوں سے سرحد پر باقاعدہ جھڑپیں ہوئیں اور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔
اب دوبارہ سے اس موقف کو دیکھتے ہیں کہ آخر طالبان حکومت کیوں اپنی سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان کو پناہ دیے ہوئے ہے اور ان کی دامے درمے سخنے مدد بھی کرر ہی ہے ۔ یہ ستمبر 2025 کی بات ہے کہ اسلام آباد میں طالبان مخالف عناصر کی ایک سیمینار نما دو روزہ بیٹھک ہوئی ۔ اس کا اہتمام (South Asian Strategic Stability Institute) SASSI نے کیا تھا جبکہ اس کی فنڈنگ امریکی تنظیم National Endowment for Democracy (NED) اور Swiss Federal Department of Foreign Affairs (FDFA) نے کی تھی ۔ 29 تا 30 ستمبر اسلام آباد میں ہونے والی اس بیٹھک میں طالبان مخالف ہر قسم کے عناصر کو اکٹھا کردیا گیا تھا ۔ اس میں 37 یا 38 افغان ڈیلی گیٹ موجود تھے ۔ شرکاء کی کوئی باقاعدہ فہرست تو جاری نہیں کی گئی البتہ جو معروف نام سامنے آئے ان میں سابق رکن اسمبلی فوزیہ کوفی ، سابق وزیر معاشیات مصطفےٰ مستور، جنیوا میں افغانستان کے سابق مستقل نمائندے ناصر احمد اندیشہ، نیشنل اسلامک موومنٹ پارٹی کے مولوی عبداللہ قرلق، اسلامک یونٹی پارٹی کی معصومہ خاوری ، سابق گورنر کابل احمداللہ علی زئی ، سابق گورنر بامیان طاہر زہیر ، خان آغا رضائی ، فریدوں ایہام ، حسین یاسا ، امان اللہ پیمان ، راحیل تلاش اور جمال الدین حکمت یار نمایاں ہیں ۔
یہاں پر یہ سوال اہم ہے کہ آخر اس سیمینار یا بیٹھک پر کابل حکومت کیوں چراغ پا ہے ۔ کوئی بھی سیمینار ہونا ایک عام سی بات ہے ۔ اس سوال کا جواب اس سیمینار کے آرگنائزر کو دیکھنے سے مل جاتا ہے ۔ یہ سیمنار SASSI یا South Asian Strategic Stability Instituteنے کروایا تھا ۔ یہ ایک تھنک ٹینک ہے جو SASSI University اسلام آباد سے ملحق ہے ۔ اس یونیورسٹی کا قائد اعظم یونیورسٹی کے ساتھ بھی کام کرنے کے اشتراک کا معاہدہ ہے ۔ SASSI ابتدا میں یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ کے شعبہ Peace Studies کا ایک ریسرچ ڈپارٹمنٹ تھا جسے فروری 2004 میں South Asian Strategic Stability Unit (SASSU) کے نام سے Bradford Disarmament Research Centre بطور specialist research Unit قائم کیا گیا ۔ اس کے لیے گرانٹ Pakistan’s National University of Science and Technology نے مہیا کی ۔ اس کے ساتھ ہی SASSU کو خودمختار حیثیت بھی دے دی گئی ۔ اسے اپ گریڈ کرتے ہی اس کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریہ سلطان کو بھی اپ گریڈ کرکے ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا جبکہ Nick Robson کو اس کا چیف کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ۔2015 میں SASSI University کا قیام عمل میں لایا گیا اور ڈاکٹر ماریہ سلطان اس کی چیئرپرسن مقرر کی گئیں ۔ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا اپنا زبردست پروفائل ہے ۔ وہ دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ،پاکستان فارن سروس اکیڈمی ، پاکستان نیول وار کالج ، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ ، پاکستان ائر وار کالج ، قائداظم یونیورسٹی کے شعبہ ڈیفنس اینڈ اسٹراٹیجک اسٹڈیز، یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کی وزٹنگ فیکلٹی ممبر ہیں ۔ وہ محکمہ دفاع سے بطور سویلین ڈیفنس اسٹراٹیجسٹ منسلک رہی ہیں ۔
آرگنائزرز کے اس مختصر سے تعارف کے بعد بات تو سمجھ آتی ہے کہ طالبان حکومت کیوں اس بیٹھک پر برہم تھی ۔ دوحہ اور استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں یہی بات وجہ نزاع تھی کہ طالبان حکومت کا کہنا تھا کہ آپ بھی اپنے ملک میں ہمارے دشمنوں کی پناہ گاہیں ختم کریں ۔ پاکستان طالبان کے اس مطالبے کو امریکا کے دباؤ پر نہیں مان پارہا ۔ مذکورہ بیٹھک نے حکومت پاکستان سے اسلام آباد میں اپنے باقاعدہ دفتر کے قیام کی جگہ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ گو کہ ابھی تک انہیں اسلام آباد میں دفتر کھولنے کی اجازت تو نہیں دی گئی ہے مگر امریکی حکومت کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جلد ہی ان کے دفاتر اسلام آباد اور پشاور میں کھل چکے ہوں گے ۔
اس تمہید کو دیکھنے کے بعد آئندہ کے حالات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔
سوال یہ ہے پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ وہ ا فغانستان کے شمالی اتحاد کی نئی تنظیم اور دیگر طالبان مخالف عناصر کی بیٹھک کی میزبانی کرے اور انہیں سہولیات مہیا کرے اور مفت میں اپنے ایک پڑوسی کو ناراض کرے ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی نئی مزاحمتی تحریک کے خالق بھی ہیں اور پشتیبان بھی ۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ طالبان کو ایک اندرونی جنگ میں پھنسا کر رکھیں ۔ اس میں وہ خاصی حد تک کامیابی بھی حاصل کررہے ہیں ۔ شمال میں مزاحمتی تحریک کے ارکان طالبان کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں تو جنوب میں امریکہ کی ایک اور ناجائز اولاد داعش طالبان کے لیے موجود ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان ہو یا داعش اور نئی افغان مزاحمتی فرنٹ ان سب کے پاس وہ جدید ترین اسلحہ موجود ہے جو امریکا افغانستان چھوڑنے سے قبل ان کے حوالے کرکے گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان پاکستانی آپریشن کے جواب میں جدید ترین ہتھیار استعمال کررہی ہے ۔ حتیٰ کہ وہ گن شپ ہیلی کاپٹروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں ۔ شنید ہے کہ جلد ہی انہیں ڈرون کی بھی سہولیات مہیا کردی جائیں گی۔
دشمن تو جو بھی کررہا ہے ، ٹھیک کررہا ہے کہ اسے یہی کرنا چاہیے ۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ ہم کیوں وہ کچھ کررہے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے ۔ افغانستان کے ساتھ جنگ کا صرف ایک مطلب ہے کہ تباہی کا گڑھا ۔ افغانستان ایک ایسا ڈمپنگ گراؤنڈ ہے جو کسی بھی ملک کی معیشت کو چوس سکتا ہے ۔ ان پر جانی و مالی نقصان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسے وہ گزشتہ 45 برسوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ وہاں پر فضائی بمباری یا ڈرون اٹیک کا مطلب ہے کہ پاکستان کی معیشت کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے جس سے روس اور امریکا بہ مشکل نکل پائے ۔ افغانستان میں زمینی فوجی کارروائی کا مطلب ہے کہ بے اندازہ جانی و مالی نقصان ۔
کابل حکومت کے جذبات کو برانگیخت کرنے کے لیے پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ ذرا خواجہ آصف کے حالیہ بیانات ہی دیکھ لیں ۔ طالبان کو قابو کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ تھا دیوبندی علماء ۔سو دشمنوں نے اس کا ایک توڑ یہ نکالا کہ امیر متقی کا دیوبندیوں کے ہیڈکوارٹر کا بھارت کا وزٹ کروا کے براہ راست رابطہ کروادیا ۔ اب طالبان بھارتی کٹھ پتلی مدرسہ دیوبند کے زیر اثر آگئے ہیں ۔
کابل میں طالبان حکومت کی افغان مزاحمتی فرنٹ سے تبدیلی سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ شمالی اتحاد ہمیشہ پاکستان مخالف اور بھارت و روس کے زیر اثر رہا ہے ۔ تو پھر پاکستان کیوں افغان مزاحمتی فرنٹ کی میزبانی کر رہا ہے اور انہیں دفاتر کھولنے کی اجازت دینے کو تیار ہے ۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر اس کے جواب میں کابل میں گریٹر بلوچستان اور آزاد پختونستان کی جلاوطن حکومتیں قائم کردی جائیں اور انہیں وہاں سے بھرپور مالی امداد کے ساتھ ساتھ فوجی تعاون بھی پیش کیا جائے تو ہم کس حال میں کھڑے ہوں گے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ مودی پاکستان پر حملے کے لیے مکمل تیار ہے ۔ اسے اپنے ملک میں عزت کی بحالی کے لیے کسی پاکستانی ٹکڑے پر قبضے کی شدید ضرورت ہے چاہے یہ چند دنوں کے لیے ہی ہو ۔ یہ علاقہ نگر پارکر کا بھی ہو سکتا ہے ، سرکریک کا بھی اور سیالکوٹ کے پاس کا بھی ۔ کشمیر میں دونوں طرف لوگ ذہنی طور پر حملے کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے راشن بھی جمع کرلیا ہے ۔ بھارتی جانب بنکروں کی مرمت و صفائی بھی کرلی گئی ہے ۔ ایسے میں جبکہ بھارتی حملہ اب اور تب کی بات لگ رہی ہو ، طالبان حکومت کو تنگ کرنے کی امریکی فرمائش پر آمنا و صدقنا کہنا اپنی سلامتی سے ہی کھیلنے کے مترادف ہے ۔ ایک جانب امریکا بھارت پر مہربان ہے ، اسے پابندیوں کے شکار ایران میں سرمایہ کاری کی اجازت دے رہا ہے ، امیر متقی کو بھارت کے دورے کی اجازت دے رہا ہے اور دوسری جانب پاکستان کو آگ کے دریا میں دھکیل رہا ہے ۔ بھارت کے ساتھ امریکا کے دس سالہ دفاعی معاہدے میں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی شامل ہے ۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ اب پاکستان کی کیا صورتحال ہے ۔
پاکستان کو ٹرمپ کی زبانی تعریف اور سعودی عرب میں روز کاسنی کارپٹ کا استقبال مل رہا ہے اور بس ۔ ہوسکتا ہے کہ ارباب حل و عقد کو ذاتی طور پر مالی فوائد بھی مل رہے ہوں مگر عملی طور پر پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ۔ لے دے کے ایک دوست چین رہ گیا تھا تو اسے ہم نے امریکا کو نایاب معدنیات کا تحفہ پیش کرکے ناراض کردیا ہے ۔ یہ نایاب معدنیات ہی تو ہیں جس کے بل پر چین نے ٹرمپ کو گھٹنوں کے بل جھکایا ہوا ہے ۔ ہم نے اس کا ہی تحفہ ٹرمپ کو پیش کرکے کہا کہ حکم کریں کہ کیا چاہیے میرے آقا۔ چین کو پاکستان سے یہ بھی شکایت ہے کہ وہ چینی ٹیکنالوجی امریکا کے حوالے کررہا ہے ۔ گزشتہ دنوں چینی سربراہ نے سرعام ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ ہمیں امید ہے کہ پاکستان چینی ٹیکنالوجی امریکا کے حوالے نہیں کرے گا ۔
شنید ہے کہ پاکستان نے غزہ میں policing کے لیے پاکستانی دستے بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ذرا سوچیں کہ جس کام کے لیے ترکی ، قطر، مصر اور اردن جیسے ممالک تیار نہ ہوں ، وہ ہم کرنے جارہے ہیں ۔ غزہ میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں کا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہے کہ حماس سے ٹکراؤ۔ اس کے نتائج و عواقب ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے مشکلات کے دن ہیں ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
پاکستان بے مقصد جنگوں میں کیوں الجھ رہا ہے؟
















