تحریر: پروفیسر ڈاکٹر حسین بانو (صدارتی ایوارڈ یافتہ، مصنفہ “رسول اکرم ﷺ کی سفارتکاری اور خارجہ پالیسی”)
مدرسے کے لیے ایک صفائی والی کی ضرورت تھی۔ وہ پہلی بار “یقینا” سے ملاقات تھی۔
بکھرے بال، بکھرا ہوا وجود، منتشر سوچیں، شوہر کی ٹھکرائی ہوئی، محبت سے محروم۔۔۔ مگر دل ایسا، جو بےتحاشا محبت لٹانے کے لیے بےتاب تھا۔
بیٹے کا نام آتا تو آنکھوں میں ایک چمک سی آ جاتی۔
یہ کہانی ان گنت غریب عورتوں کی طرح تھی، جو بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں اور سخت دلوں والے دیہی معاشرے میں اکثر سننے کو ملتی ہے۔
شوہر چھوڑ دیتا ہے، نان و نفقہ نہیں دیتا، الٹا بچہ بھی چھین لیتا ہے۔
میں نے “یقینا” سے کہا:
“چھوڑ دو اس شخص کو جو تمہارا نہیں ہے۔”
لیکن میرے جیسے شہری ماحول کی عورت کے لیے یہ کہنا جتنا آسان تھا، اس کے لیے اتنا ہی مشکل۔
بیٹے کی یاد میں آنکھیں برس پڑتیں۔ میں حیران ہوتی کہ اتنی نازک، معصوم لڑکی کو کوئی کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
“وہ کہتا ہے میں دماغی مریض ہوں، جھلی ہوں۔۔۔”
اس نے بے قراری سے سر کو چھوا اور میرا دل لرز اٹھا۔
میں نے اسے ادارے میں کام کی پیشکش کی:
“چائے بنانی ہو گی، صفائی، ٹیچرز کے لیے خدمت۔۔۔”
اس نے ہر بات پر سر ہلا دیا۔ کبھی انکار نہ کیا۔
استادوں سے اچھا تعلق، بچوں سے محبت۔
کچھ عرصے بعد، شوہر نے بیٹے کو اسکول میں داخل کرا دیا۔ شاید صلح ہو گئی ہو۔
یوں “یقینا” ہمارے ساتھ ہو گئی۔
جب میں کراچی سے واپس آتی تو دیکھتی، وہ اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔
اب وہ باتوں کا جواب بھی دیتی، چہرے پر خوشی جھلکتی۔
ادارے میں دیانتداری سے کام کرتی، کبھی غیر حاضر نہ ہوتی۔
ایک بار میں ایک مشہور کالج کی پرنسپل سے ملی، جو 19ویں گریڈ کی سرکاری افسر تھیں۔
خوبصورت، باوقار، بااخلاق۔
میری دین داری سے متاثر تھیں اور چاہتی تھیں کہ میں ان کے پاس بیٹھا کروں۔
انہوں نے اپنی ناکام شادی کا ذکر کیا، میں حیران رہ گئی۔
“اتنی پیاری خاتون کو بھی کوئی چھوڑ سکتا ہے؟”
انہوں نے کہا:
“حسین، شاید اللہ ہمیں آزاد رکھتا ہے تاکہ ہم خدمتِ خلق بہتر کر سکیں۔”
بلوچستان کی گرم ریت میں بکھری ہوئی “یقینا” کی طرف پھر دل مڑ گیا۔
وقت گزرتا گیا۔
شوہر دوبارہ بچے کو چھین لے گیا — اذیت دینے کے لیے۔
“باجی، وہ بھی اپنے باپ کی طرح ہے، علم کی قدر نہیں۔”
میں نے کہا:
“تو تم مدرسے میں پڑھا کرو۔ قاعدے سے شروع کرو۔۔۔ مشکل ہے، ناممکن نہیں۔”
“یقینا” نے پڑھنا شروع کر دیا۔
اس کا پیارا بھائی اکثر مدرسے آتا، کبھی چھوڑنے، کبھی دودھ لے کر۔
قاری صاحب بتاتے کہ وہ فجر کی جماعت میں شریک ہوتا۔
اللہ کے دین نے اثر دکھانا شروع کیا۔
ایک دن خبر ملی:
“باجی، یقینا کے بھائی کو قتل کر دیا گیا۔۔۔”
میں سناٹے میں آ گئی۔
خون میں لت پت لاش۔
میں نے کہا:
“یہ خبر آنٹی کو نہ دینا، میں خود بتاؤں گی۔”
مدرسہ، مسجد، اسکول بند ہو گئے۔ پورا علاقہ سوگوار۔
دس دن تک ہو کا عالم رہا۔
پھر جب میں وہاں گئی تو معلوم ہوا، کہانی وہی تھی جو ازل سے ہے:
زر، زن اور زمین۔
ایک عورت کی وجہ سے فساد، ایک ناحق قتل۔
مظلوم قبر کے نیچے، قاتل آزاد، وزیر کی سرپرستی میں۔
ماں بیٹے کی قبر پہ بیٹھ گئی، دوپٹہ پاؤں میں ڈال کر انصاف مانگتی رہی۔
وہ بھائی جس نے کبھی بہن کے آنسو نہ دیکھے، خود خون میں لت پت کر دیا گیا۔
اس کی جوان بیوہ، خالی جھولی، پریشان حال بھائی۔۔۔ سب بکھر گئے۔
پھر وقت گزرا، “یقینا” واپس آئی۔
ویسی ہی جیسے ہمیں پہلی بار ملی تھی — اجڑی ہوئی، بےحال۔
“باجی، بھائی کے جانے کے بعد سب کچھ خالی لگتا ہے۔۔۔”
میں نے کہا:
“یقینا، میں تمہاری کہانی لکھوں گی۔”
اس نے آہستگی سے کہا:
“باجی، نہ لکھیں۔ ایک بھائی چلا گیا، باقی پہ حرف نہ آئے۔۔۔”
میں خاموش ہو گئی۔
اللہ پہ چھوڑ دیا۔
وہی انصاف کرے گا۔
“یقینا” اب بھی کام کرتی ہے، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتی ہے۔
اف! اس کا ایمان — کتنی گہرائی ہے۔
یقینا کا دامن بھرا ہے۔۔۔ اور میرا۔۔۔ خالی