پاکستانی سیاست میں ہلچل ہے پورا ملک ذرائع ابلاغ میں اچھالے جانے والے شوشوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک میں ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ پی ٹی آئی ہے جو ملک کو اٹھا کر کہیں لے جانے کی کوشش کررہی ہے ،دوسری طرف حکومت ہے جو یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہی ہے جو اس ملک کو بچا اور چلا سکتی ہے ، لیکن قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ بہت مختصر یادداشت کی مالک ہے ۔اگر تھوڑا بہت غور کریں تو یہ کہانی تو پاکستان میں بہت پرانی ہے ،ایک زمانے میں جنرل ایوب خان ملک بچانے کا کام کرتے دکھائی دے رہے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح ملک دشمن ظاہرکی جارہی تھیں ۔ایوب خان کے طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے اور ذوالفقار علی بھٹو نجات دہندہ بنا کر لائے گئے،لیکن صرف چھ سال بعد 1971 میں ہتھیار ڈالنے اور مشرقی پاکستان کے سقوط کی ایک ذمہ دار پاک فوج نے بھٹو کو ملک دشمن ثابت کیااور خود نجات دہندہ بن کر جنرل ضیاالحق آگئے ، لیکن گیارہ برس تک اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ کوئی ایسا کام نہ کرسکے جو ملک کے نجات دہندہ کو کرنا چاہئیے ، البتہ بھٹو کی پھانسی، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور لسانی اور علاقائی عصبیت پھیلاکر سیاسی نظام میں مستقل تباہی کے بیج بوگئے جو آج تک برگ وبار لارہے ہیں ، ضیاءالحق کو حادثے کے ذریعہ راستے سے ہٹایا گیا اور بھٹو کی بیٹی بینظیر نجات دہندہ بنا کر سامنے لائی گئیں، لیکن نجات تو کیا یہاں سے باریوں کا کھیل شروع ہوگیا ،دوسال ، ڈھائی سال کی حکمرانی کا ڈراما شروع ہوا، قوم کو کچھ نہیں ملا ان باریوں کے دوران کبھی میاں نواز شریف اور کبھی بے نظیر کو وہ کردار دیا جاتا رہا جو اج کل عمران خان کو قرار دیا گیا ہے ، ان دونوں کی باریوں کے بعد جنرل پرویز مشرف نجات دہندہ بن کر آئے لیکن 9 سال میں وہ بھی قوم کو کسی معاشی یا سیاسی بحران سے نجات نہیں دلاسکے ، وہ بھی وکلا کی ایک تحریک کے ذریعہ کمزور کیے گئے اور ماضی کے چور سپاہی کھیلنے والوں کو میدان حوالے کرکے ملک سے چلے گئے ،اور اتفاق سے پیپلز پارٹی ہی کو جرنیلی اقتدار کے بعد پھر نجات دہندہ بناکر لایا گیا ،لیکن فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ بھٹو کی بیٹی نہیں داماد نجات دہندہ بنائے گئے، کیونکہ بیٹی کو جنرل مشرف کے اقتدار کے دنوں میں راستے سے ہٹا دیا گیاتھا۔
زرداری صاحب کا کھیل بھی زیادہ نہیں چلا تو پھر نواز شریف کو لایا گیا اور یہ کھیل اتنا عام ہوچکا تھا کہ لوگ باریوں کا چکر سمجھنے لگے ،قوم حقیقی تبدیلی کی تلاش میں تھی اسے اسی نام پر تبدیلی کا خواب دکھایا گیا اور عمران خان کی صورت میں ایسی تبدیلی لائی گئی کہ عقل حیران رہ گئی ، ملک کی تباہی کے ذمہ دار نواز شریف اور زرداری ثابت کردئیے گئے ،لیکن ان دونوں پارٹیوں کے اہم لوگوں کو پی ٹی آئی میں شامل کروادیا گیا، گویا وہ گنگا اشنان کرکے اگئے ،اس تبدیلی کو میڈیا کے ذریعہ تبدیلی ثابت کروایا گیا ، ان میں ہرطرح کے لوگ شامل تھےتین تین پارٹیاں بدل کر انے والے بھی اور جنرل مشرف کے مارشل لا کی ٹیم والے بھی ،اور ساڑھے تین سال میں اس تبدیلی نے وہ رنگ دکھائے کہ قوم اب تک بھگت رہی ہے۔
اب پھر میڈیا کے ذریعہ قوم کو یرغمال بنارکھا ہے، ٹی وی چینلز پر پہلی خبر پی ٹی ائی کی اندرونی لڑائی کی ،دوسری خبر بانی پی ٹی آئی کے بیان کی تیسری خبر اس بیان پر حکومتی ردعمل کی ،چوتھی خبر بانی پی ٹی ائی کے مقدمات کی ،پانچویں چھٹی بھی اسی سلسلے کی، اور ایک زخبر بجلی کے نرخ بڑھنے کی ،دیگر سرکاری خبروں کے مطابق ملک ترقی کی منازل پھلانگتا ہوا تیزی سے جاپان سے بھی آگے نکل جانے والا ہے ،لیکن کیا یہ سب حقیقت ہے ،کیا ملک میں اب مسلم لیگ ،پی پی ،ایم کیو سیم اور جے یو آئی ف کی حکومت اور پی ٹی آئی کے سوا کوئی مسئلہ نہیں رہا ، معیشت تبسہ ،صنعتیں بند۔ مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ، بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ،ٹیکسوں کی بھرمار ،قرضوں کا بوجھ ،آئی ایم ایف کی شرائط اور بے امنی ، لیکن کسی فیکٹری سے دہشت گردوں کی پیداوار ،روز نیا آپریشن اور روز نئی دہشت گردی کا سلسلہ اس ڈرامے پر سوال ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے ،ملک خطرے میں ہے سنتے اور پڑھتے پچاس سال سے زیادہ ہوگئے، لیکن عوام کی ہر طرح کی قربانی کے باوجود یہ خطرہ ٹلا نہیں ، تو پھر ملک کو چلانے والے بتائیں کہ وہ ملک کو کہاں لے جارہے ہیں ۔
ملک کہاں جارہا ہے ؟
