Advertisement

صحتمند ماحول ،صحتمند زندگی

ڈاکٹر صاحب نے نسخہ لکھتے ہوئے کہا کہ دوا تو میں لکھ رہا ہوں مگر اپ کو ضرور پینتیس 40 منٹ واک کرنی ہوگی تب ھی اپ کا مسئلہ حل ہوگا!!
ڈاکٹر صاحب واک،، مگر میں کہاں کروں گی میرے تصور میں ٹوٹی سڑکیں بہتے ہوئے گٹر کا پانی اور کوڑا کر کٹ سامنے آگیا، میں جو کراچی میں رہتے ہوئے اپنی طبیعت اور مزاج سے عاجز بھی ہوں یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں کراچی جو میرا محبوب شہر ہے مگر اس کی صورتحال میرے دل کو دکھانے کا سبب بھی ہے کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ماحولیاتی الودگی اور تباہ حال انفرااسٹرکچر کی بدولت سنگین صورتحال سے دوچار ہے ،ایک نہیں کئی کئی مسائل نے عروس البلاد کراچی کی رونقوں کو معدوم کر دیا ہے جہاں یہ مسائل ہیں وہاں امن و امان کا مسئلہ بھی شہریوں کو عدم تحفظ اور ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتا جا رہا ہے۔ اگر ہم بات کریں ماحولیاتی الودگی کی تو صنعتی الودگی گاڑیوں کا دھواں فضلے کا صحیح جگہ ٹھکانے نہ لگانا فضا کو زہریلا بنا رہا ہے اس سے نہ صرف انسان بلکہ جانور اور پودے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور سوچیں یہ پودے مرجھا جائیں درخت نہ بن سکیں تو الودگی ہی حاوی ہوگی، بم بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے سبب مختلف امراض مثلا سانس کی بیماریوں دل کی بیماریوں جلدی بیماریوں اور دیگر امراض میں مبتلا ہورہے ہیں،یہ آلودگی صرف عام آدمی کی صحت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ اس ماحولیاتی الودگی نے اقتصادی اور سیاحتی سرگرمیوں کو بھی متاثر کر دیا ہے کراچی وہ شہر تھا جسے دیکھنے لوگ دور دور سے انا چاہتے تھے مگر اج انتہائی افسوسناک صورتحال سے دوچار ہے، اب یہاں صنعتوں کے لئیے ماحول سازگار نہیں ہے بنانا پڑتا ہے ، سڑک، سیوریج اور لائٹس سب انہیں لگانی پڑتی ہیں ،جبکہ پاکستانی دواسازی کی صنعت کو تو بین الاقوامی قوانین کی پابندی بھی لازما کرنا پڑتی ہے ، یہ سب کرنے کے بعد انہیں ٹیکس بھی پورا دینا پڑتا ہے ۔ بات صرف ماحولیاتی الودگی کی نہیں بلکہ سارا نظام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، انفراسٹرکچر کی تباہی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے ، اگر 70 کی دہائی تک کی بات کی جائے تو یقین نہیں اتا کہ وہی سڑکیں ہیں اور شہری نظام ہےجبکہ جدید سے جدید ٹیکنالوجیز اگئی ہیں جس میں بہت جلد اور بہت بہتر طریقے سے ہر چیز ٹھیک کی جا سکتی ہے بات صرف خلوص کی اور اپنی مٹی سے محبت کی ہے کراچی جو کہ لگتا ہے کسی پلاننگ کے تحت تباہ کر دیا گیا اس کی سڑکیں ادھیڑ کر رکھ دی گئی جس پر چلنا تو دور کی بات گاڑی چلانا بھی سر درد سے کم نہیں ، خراب منصوبہ بندی اور ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، زیر تعمیر سڑکیں، پل فلائی اوور اور ریڈ اور مختلف لائن کی بسوں کے نظام کے قیام کی برسوں سے جاری نامکمل تعمیرات ،جن کے اختتام کا پتا ہی نہیں، ان سب نے سڑکوں کو تنگ کر دیا ہے اس پر طرہ ناجائز تجاوزات ہیں ، پیسہ کھلاؤ اور جہاں چاہو عمارت بنالو ،کوئی پوچھنے والا نہیں اگر ایک سڑک اللہ اللہ کر کے بن جائے تو کچھ دنوں بعد خیال اتا ہے یہاں زیر زمین گٹر یا کوئی اور پائپ لائن گزرنا ہے، اور یہ سڑک پھر ادھیڑ دی جاتی ہے نامعلوم مدت تک کے لیے، پھر وہی اڑتی ہوئی گردو غبار اور بہتا سیورج کا پانی، نکاسی کا بھی اس قدر ناقص انتظام ہے کہ تھوڑی سی بارش ان تعمیرات کا پول کھول دیتی ہے، یہ گٹر بہتا ہوا گلیوں اور سڑکوں سے جب گزرتا ہے تو تعفن اور گندگی ذہنی اذیت کا سبب بنتی جاتی ہے، کچرے کا ڈھیر جگہ جگہ خاص طور پر مساجد، اسکولوں اور پارکوں کے باہر تو لگتا ہے خاص اجازت لے کر کچرا کنڈی بنائی جاتی ہے اس کی سڑاند جس طرح فضا کو الودہ کرتی ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔
یہ حال صرف کراچی کی نہہں باقی ملک بھی اسی مسئلے سے دوچار ہے ، مگر افسوسناک بات یہ کہ پاکستان کے صنعتی مرکز منی پاکستان، کراچی کی مجموعی صورتحال پر بات کی جائے تو دل دکھانے کو بہت کچھ نظر اتا چلا جائے گا مگر ہمیں واقعی سنجیدگی کے ساتھ مل کر سوچنا ہوگا جہاں حکومتی اداروں کا فرض ہے وہاں ہم سب کا بھی ہے کہ ہم ماحول کی صفائی کے لئیے اگاہی پروگرام کو پھیلائیں صفائی نصف ایمان کے سرکار دوعالم کے حکم کو سمجھنا ہوگا،اس حکم میں صرف لباس کی صفائی نہیں ہے بلکہ راستوں سے پتھرہٹانا، جگہ جگہ کچرا نہ پھینکنا،اور ایک خاص بات آجکل ہر شخص کے منہ میں گٹکا، پان چھالیہ ہے یہاں تک کہ بات کرنا مشکل ہے اور یہ لوگ ہرجگہ پیک تھوکتے پھرتے ہیں،جبکہ ہمارے نبی نے جگہ جگہ تھوکنے کی ممانعت کی ہے۔ یہ عادت تو ایک طرف کھانے والے کو بیمار کرتی ہے اور دوسری طرف بیماریاں پھیلانے کاسبب بھی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے بھرپور مہم چلانی ہوگی۔
اسی طرح صنعتوں کو الودگی کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ عوامی ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا ہوگا سالڈ ویسٹ کو ری سائیکل کرنے اور مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کا انتظام کرنا ہوگا ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنس دان و ماہرین کی مدد لینا ہوگی میڈیا کے ذریعے شعور بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئیے وہیں ہر شہری اپنی ذمہ داری محسوس کرے تو ماحول بہتر ہوسکتا ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: