Advertisement

حماس کی مزاحمت پر شرمندہ اہلِ قلم کے نام

مذمت نہ کرنے والے کچھ اہل قلم کو اہل غــزہ کا کھنڈرات پر کھڑے ہوکر جیت کا جشن منانا برا لگ رہا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم معـرکہ طـوفـان الاقـصیٰ اور حالیہ جنگ بندی پر ان دانشوران کے خدشات کے حوالے سے بات کریں گے۔
ان کے تجزیوں میں اکثر باتیں (درست یا غلط ہونے سے قطع نظر) محض اپنے تخیل کے زور پر لکھی گئی ہیں۔ ان تحاریر کی سطحیت اس بات کا پتہ دے رہی ہوتی ہے کہ ان کی مغربی و انگریزی نشریاتی اداروں کی رپورٹس پر بھی کوئی اچھی نظر نہیں چہ جائیکہ وہ عرب اور عبرانی میڈیا دیکھتے ہوں۔ آن گراؤنڈ خبروں سے تو خیر سے بالکل ہی ناواقف ہیں۔ اوپر سے میرے مطالعے میں آنے والی ان دانشوروں کی ہر تحریر ہی دعووں اور جذبات سے لبریز ہے۔
ٹرمپ صاحب کی محبت میں امریکا کے شکر گزار بنے حضرات و خواتین سے گزارش ہے کہ یہ معاہدہ کوئی پہلی جنگ بندی نہیں ہے۔ 2006 سے آج تک 6 مرتبہ معاہدے ہوئے ہیں اور ہر مرتبہ امریکا کی ثالثی ہوتی ہے۔ یہ ثالثی کوئی احسان نہیں ہوتی بلکہ بڑھتے ہوئے پبلک پریشر اور مسلمانوں کی بے چینی کو کم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ یاد رہے پچھلے 35 سالوں پر امریکـی سرزمینوں پر ہوئے سب بڑے حـملوں کی وجہ الاقـصی کا بہتا ہوا لـہو ہی بیان کی جاتی تھی۔
کچھ کو دکھ اس بات کا ہے کہ اتنے لوگوں کو مـروانے کے بعد جـنگ بندی کی۔ تو شاید جنـگ شروع ہی نہیں کرتے۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ غـزۃ میں ہونے والی اس سے پہلے کی پانچ جنـگیں فلسـطیـنیوں نے نہیں شروع کی تھیں۔ ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضـہ کیا گیا تھا اور وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق جواب دینے میں مصروف عمل ہیں۔
کامیابی یا شکست کا پیمانہ ضروری نہیں ہے کہ جانی و مالی نقصان ہی ہو۔ جنگ عظیم دوم میں اسٹالن گراڈ کے محاذ پر روسیوں کا نقصان جرمنی سے کہیں زیادہ تھا مگر میدان جـنگ روسیوں کے نام رہا۔ انفراسٹرکچر کی تباہی بڑا نقصان تو ہوتا ہے مگر حوصلہ مند قوموں کو واپس اٹھ کھڑے ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ چیـنیوں کی مشہور زمانہ people’s war سے کون واقف نہیں جس نے ناصرف چین کو جاپانیوں کے ظالمانہ تسلط سے آزادی بخشی بلکہ جدید چین کی بنیاد رکھی۔ کشـمیـر کی آذادی کے لیے بھی 1965 میں چینیوں نے ہمارے دانشوران کے روحانی والد جنرل ایوب خان کو صلاح دی تھی کہ اگر پاکستان عوامی جنـگ کے لیے تیار ہے تو چین بھی پوری طرح مدد کرے گا۔ مگر برطانوی ملٹری اکیڈمیوں کے پڑھے ہوئے پاکستانی افسران کو یہ منطق سمجھ نہ آئی۔ نتیجتاً کشــمیر پر آج بھی بھارتی قـبضہ ہے۔
جنـگ لـڑنے کا حوصلہ ہر قوم میں کہاں۔۔۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک ہلے میں آپ کی تمام قیادت اڑا دی۔ مگر انتـفاضـہ سے آج تلک کی تاریخ گواہ ہے کہ لیڈرشپ اور افرادی قوت کا یکے بعد دیگرے شہـید ہونا مزاحـمتی گروہ کے لیے اتنا نقصان دہ بھی نہیں رہا جتنا ایک ریاستی نظام کا کھوکھلا پن واضح ہونا ایک ریاست کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
کچھ افراد کا مشورہ ہے کہ فلسـطینـیوں کی سفارت کاری کو مضبوط کیا جائے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سفارتی محاذ پر بات ان کی ہی سنی جاتی ہے جو میدان عمل میں کسی بھی قسم کا weightage رکھتے ہیں۔ پچھلے سوا سالوں میں چین، روس اور دیگر ممالک کے وزراء و سفراء سے جتنی ملاقاتیں حـمـاس نے کی ہیں، وہ تو خود ایک ریکارڈ ہے۔ حـمـاس کی شرائط پر ہونے والا موجودہ معاہدہ اور 2011 کا معاہدہ اگر فنِ سفارت کی معراج نہیں تو اور کیا ہیں۔ بائیڈن کو کہنا پڑا کہ یہ مزاکرات اس کی زندگی کے مشکل ترین تھے۔
کچھ احباب کو شوق ہے کہ وہ حـمـاس و حـزب اللہ کا تقابل کریں۔ پچھلے معـرکوں میں حـزب اللہ کی پچھلی شاندار فتوحات کے متعلق لکھتے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ وہ 2000 کی بات کررہے ہیں یا 2006 کی مگر اگر وہ فتح تھی تو ایسی فتح تو 2005 یا 2014 میں فلسطـینی بھی غزہ میں حاصل کرچکے کیونکہ تقریبا تمام پیمانوں پر یہ معرکہ ایک جیسے ہی نتائج لائے۔ دانشوران کو بہرحال یہ دکھ ہے کہ ایـران اور حـزب اللہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ وہ بشار حکومت کا بھی غم منا رہے ہیں حالانکہ حالیہ معرکے میں اس کا کردار نہ ہونے کر برابر رہا۔ شدید نقصان کا جواب وہی ہے کہ مـزاحمت کی اپنی ایک ذہنیت ہے جو بزدلی اور مایوسی سے کوسوں دور رہتی ہے۔ ایـران نے مدد ضرور فراہم کی مگر فلسطــینی مقـاومت کا سارا دارومدار ایک ہی قوت پر نہیں تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ ابھی جنگ بندی طے ہوئی ہے۔ جنگ ختم نہیں ہوئی۔ ظفر مند اور شکست خوردہ ہونے کا تعین جنگ ختم ہونے کے بعد ہی ہوگا۔ اور جـنگ ختم ہوگی جب مکمل آزادی نصیب ہوگی ۔
پھر بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہار جیت کا فیصلہ کریں تو فریقین کے لـڑائی شروع کرنے کے وقت کے دعوے اور اہداف دیکھ لیجیے۔ کس کو کیا اور کتنا حاصل ہوا، یہ دیکھ لیجیے۔ مزید دیکھنا ہو یہ بھی دیکھ لیجیے کہ کون جشن منا رہا ہے اور کہاں ماتم کدہ ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے عربی و عبرانی میڈیا دیکھنا پڑے گا۔ OSINT کے بنیادی اصولوں اور آلات کو استعمال کرتے ہوئے آن گراؤنڈ خبروں تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ دانشوری آسان اور محنت بہرحال مشکل کام ہے۔
یقیناً جـنگ میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوتی مگر جیت تو ہوتی ہے۔ امن پسند ہونے کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ آپ ظلـم برداشت کریں۔ عدل و انصاف کی بنیاد پر جنـگ لڑنی پڑتی ہے اور لڑنی چاہیے بھی۔
آخری بات یہ ہے کہ بزدلوں کے محلے کا بچہ اگر قوی دشـمن کی آنکھ پھوڑ آئے۔ نتیجتاً اپنے ہاتھ پیر تڑوا بیٹھے تو محلے والوں کو چاہیے کہ بچے کا علاج کروائیں، اس کے لڑنے کے واسطے اگلی بار ڈنـڈے کا بندوبست کریں۔ اس لڑکے کے ساتھ ان کے اپنے بچے جو بدمعاش کو منہ چڑاتے ہیں، ان کی گوشمالی نہ کریں کہ وہ بھی تو کچھ کرتے ہیں۔ مزید ایک احسان یہ کریں کہ اس بیچارے بچہ کو اپنے مشوروں سے نہ نوازیں۔ (حکمت سے عاری بزدلوں کے مشورے کا ویسا بھی وہ بچہ اچار ہی ڈالے گا) اور اگر واقعی محلہ والوں میں سے کسی کو بدمعاش کے خلاف کوئی نیا کام کرنا ہے تو پھر اپنا روڈ میپ پیش کرے اور اس پر محنت کرے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: