Advertisement

بچوں میں عدم برداشت ، والدین کیا کریں؟

” ماما ٹیب کھیلنا ہے” جاذب نے آواز لگائی ۔ثنیہ نے سنی ان سنی کر دی تھوڑی دیر بعد پھر جاذب کی آواز آئی” ماما آپ کہاں ہیں میں ٹیبلیٹ لے رہا ” اس دفعہ جاذب کی آواز میں زیادہ زور تھا۔
“ہوم ورک مکمل کرلیا ؟” ثنیہ کو نوٹس لینا ہی پڑا
“تھوڑا سا رہ گیا ہے بعد میں کرلونگا” جواب آیا کیونکہ جاذب کو پتا تھا کہ یہ سوال تو سب سے پہلے ہونا ہے
” پورا کر لو تب لے لینا” ثنیہ کا فیصلہ تھا
“کہہ رہا ہوں نا کر لوں گا “
“جب کر لو گے تو لے لینا” وزن برابر تھا
“آخر کیوں۔۔۔؟” اب جا ذب خم ٹھونک کر میدان میں
آگیا تھا اس نے پینسل پٹخ کر تیوری چڑھا لی
” اس لیے کہ پھر رہ جائے گا اسکو ابھی پورا ہونا ضروری ہے ویسے بھی ایگزام نزدیک آ گئے ہیں پڑھائی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے” ثنیہ نے بات سمجھاتے ہوئے کہا
“ہاں لیکن ایک گھنٹہ ٹیبلٹ کھیلنے سے کوئی اتنا فرق نہیں پڑ جائے گا” دس سالہ جاذب کی آواز میں ضد اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ غصہ بھی نمایاں تھا اس کو سامنے نظر آتی رکاوٹ دور کرکے ہر حالت میں ٹیبلٹ پر گاڑیوں کی ریس کھیلنی تھی۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرکے ثنیہ کچن سے باہر آگئی “دکھاؤ کتنا کام باقی ہے؟” دیکھا تو کافی سارا باقی تھا
“سوائے انگلش کے کچھ نہیں کیا ہے تم نے میتھس، اردو اور سائنس سب باقی ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ تھوڑا سا ہے”
” پھر بھی میں کر لوں گا۔۔۔۔ جاذب نے ضدی آواز میں کہا
” نہیں کام پہلے اور کھیل بعد میں یہ کووڈ کے دنوں میں کھیل کھیل کر تم ہر وقت کھیلنے کے بہت عادی ہو گئے ہو اب جب تک پورا ہوم ورک کرکے نہیں دکھاؤ گے ٹیب نہیں ملے گا “ثنیہ قطعی انداز ہوئی فیصلہ سنا تےہوے واپس کچن میں چلی گئی
“بھئئئئئئی مااااامااااا “جاذب پوری قوت سے گلا پھاڑ کر چلایا “کیا مصیبت ہے ہر وقت یہی ہوتا ہے” غصے اور بے بسی سے اس کا چہرہ دہک اٹھا آنکھیں سرخ انگارا ہو کر ابل پڑیں جاذب گلےکی رگیں پھلائے ہذیانی انداز میں چلا رہا تھا پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگااچانک خاموش ہوا اور غصے سے رائیٹنگ ٹیبل کو ٹھوکر مار کر کمرے سے نکل گیا جاتے جاتے ہوم ورک کرتی بہن کو کہنی مار دی جسی اس کی پوری کاپی پر لکیر پڑ گئی زارا چلائی”مامابھیا نے میرا سارا پیج گندا کردیا” یہ کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگی میں نے کچھ نہیں کیا ہے اس نے خود خراب کیا ہوگا جاذب نے اپنی صفائی دینے کی ذمہ داری ٹیرس میں کھڑے کھڑے ہی پوری کر دی اب اس کی آواز کا جوش کم ہوچکا تھا بہن کو ستا کر اس نے اپنا غصہ کسی حد تک اس پر انڈیل دیا تھا،،، ثنیہ کےدماغ میں ایک گرم سیال دوڑ گیا۔۔۔ اس نے خود کو سنبھالنےکی کوشش کی۔۔۔ سالن بھونتے ہوئے اس کی کلائی دیگچی کے کنارے لگ گئی تھی۔۔۔ مگر اس کی کراہ جسمانی تکلیف پر نہیں بلکہ ذہنی تکلیف پر تھی جاذب کا مزاج روز بروز خراب ہوتا جا رہا تھا ذرا کوئی بات مرضی کے خلاف ہوئی توآگ بگولاہونا تو معمول بن گیا تھا خاص طور پر کسی مطالبہ میں رکاوٹ پڑی یا فرمائش پر کوئ شرط عائد ہوئی تو اس کا ضبط جواب دے جاتا
یہ ایک بچے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر گھر کا ایک نقشہ ہے
ادھر دیکھیے ساڑھے تین سال کا صائم ماں کو لیٹا دیکھ کرخاموشی سے کمرے سے نکلا پلاسٹک کا اسٹول لے جا کر کچن میں سنک کے پاس رکھا اور کولڈ ڈرنک کی ایک خالی بوتل میں لکوڈ ڈش واش اچھی طرح ڈالا اور نل کھول کر پانی بھرنا شروع کر دیا تیز پانی گر کرجھاگ بننے لگا اور وہ سنک میں بھرنے لگا اس حسین منظر کو دیکھ کر صائم کی کلکاریاں چھوٹنے لگیں کچھ دیر بعد نوین کو کچھ خیال آیا تو اس نے خاموشی سے موبائیل رکھا کمرے میں صائم نہیں تھا باتھ روم میں دیکھا وہ دوسرے کمرے سے گزرتی ہوئی جب کچن میں آئی تو ایک عجیب منظر سامنے تھا لکوڈ سوپ کی بوتل خالی ۔۔۔ سنک جھاگ سےلبالب بھرا تھا اور صائم کے چہرے پر خوشیوں کے ہزاروں رنگ۔۔۔۔!!! نوین کا دماغ خراب ہو گیا۔۔۔ پیار آنے کے ساتھ ساتھ ڈش واش کی خالی بوتل نے دل جلا دیا “کیا ہو رہا ہے” اس نے فوراًنل بند کیا
” واش ماما واش” صایم نے احتجاج کیا
” بس ہوگیا واش مجھ سے کہنا تھا نا آپ خود سے کیوں آگئے ” اس نے جلدی سے کندھوں سے پکڑ کراسے نیچے کھڑا کیا بس اتنا ہونا تھا کہ صائم آپے سے باہر ہوگیا ہاتھ میں پکڑی کولڈ ڈرنک کی بوتل اتنے زور سے ریک پہ ماری کے دو کپ گر کر شہید ہو گئے اب ممکنہ طور پر دو تھپڑ صائم کو پڑنے تھے جس کے بعد پورے گھر میں طوفان آنا تھا بستر کی چادر کھینچنا کشن نیچے پھینکنا فٹ میٹ اٹھا کر ہوا میں اچھال دینا ۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اس رویہ کا کیا علاج کیا جائے ؟؟؟
اور اس کا جواب ہے کہ مرض کے علاج کے لئے اس کے محرکات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہوتا ہے،،،
بچوں میں عدم برداشت کی عادت آہستہ آہستہ پروان چڑھتی ہے ایک دم آکر کھڑی نہیں ہو جاتی ۔ عدم برداشت دراصل خواہش ، مرضی ، پسند ، خود مختاری اور جذباتیت ہی کی انتہائی شکل کا نام ہے اس کی ابتدا وہاں سے ہوتی ہے جب بچوں کو ٹی وی یا موبائل کے سائے میں کھانا کھلایا جارہا ہوتا ہے اس پر نظر آنے والی چیزیں بچے کے دل میں جگہ بناتی ہیں وہ ان کی تمنا کرتے ہیں ہیں اور مہیا ہونے کی صورت میں آہستہ آہستہ ان کے عادی بننے لگتے ہیں اکثر اوقات بچوں کی شرارتوں سے بچنے کے لیے بھی اسکرین کا سہارا لیا جاتا ہے اور بچےجو کچھ اس پر نظر آنے والے خوب صورت مناظر میں دیکھتے ہیں ان کا حصول اپنا فطری حق سمجھنے لگتے ہیں یہی نہیں بلکہ بچے سے کھانے پینے میں اس کی پسند پوچھی جاتی ہے کہ اس وقت کیا کھانا ہے؟
لباس میں پوچھا جاتا ہے کہ یہ بہننا ہے یا یہ؟
یہی چیز بچے کو خود مختاری کا احساس دلاتی ہے سپر مارکیٹ۔میں والدین بغیر کسی سے پوچھے چیزیں اٹھا کر ٹرالی میں رکھتے ہیں تو بچہ بھی یہی کرتا ہے اور ہر چند روکنے کے باوجود بھی بچہ کچھ نہ کچھ اپنی پسند کالے ہی آتا ہے یہ چیزیں بچوں میں” من مانی” کو پروان چڑھاتی ہیں ۔ وسائل کی افراط بھی بچے میں خود پسندی اور ذاتی تسکین کو ہوا دیتی ہے۔ اج کل اسطرح کے گھروں میں عام طور پر وسائل کی افراط اور بچے اکا دکا ہوتے ہیں ماں باپ چراغ کے جن کی طرح بچوں کی فرمائش کی تعمیل کرتے ہیں اسکرین کا کثرت سے استعمال چیزوں کے انتخاب میں مدد گار ہوتا ہے بلکہ رویوں کو سرکش بنانے اور غصے کے اظہار کے نت نئے انداز بھی سکھاتا ہے بچوں کو ناکافی توجہ ملنا بھی بچوں میں جھنجھلاہٹ غصہ اور ضد پیدا کرتا ہے بچہ اپنی پسند ناپسند خواہشات اور مشاہدات والدین سے بانٹنا چاہتا ہے مگر دونوں اپنی اپنی مصروفیت کے علاوہ سامنے بیٹھ کر بھی موبائل پر توجہ رکھتے ہیں ایسی صورت میں بچے اپنی ہستی منوانے کے لئے بھی غصہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل والدین بچوں کو حکم کی تعمیل کے لیے وقت بھی نہیں دیتے۔ ایک بات کہتے ہیں اور فرماں برداری کی جلدی کرتے ہیں بچہ دیر لگاتا ہےلاڈ دکھانا چاہتا ہے ویسے بھی چھوٹا ہے اس کی رفتار بڑوں سے کم ہوتی ہے اور پھر ناپسندیدہ کام پر بجا آوری یوں بھی سست رفتار ہو جاتی ہے ایسے میں ماں باپ کا جلدی مچانا بچے کو جلدی مچانےکی راہ دکھاتا ہے اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سیکولر میڈیا کے کار پردازوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بچوں کو سرکشی کی تربیت دینے کا آغاز آدھی صدی پہلے ہی کردیا تھا انسانیت کو برباد کرنے والےمنصوبہ گروں کو معلوم ہےکہ اسکرین کی تیز روشنی اور موسیقی ذہن کےخلیوں کو ناکارہ کر دیتی ہے جذبات کو ابھارتی اور دماغ کی لہروں کو پریشان کرتی ہے جتنی موسیقی کی رفتار تیز ہو گی انسانوں میں عدم برداشت کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہوگی اس بات کا اعتراف بین الاقوامی میڈیا کے کارپردازوں نے ہمیشہ کیا ہے رینڈ کارپوریشن اور اس سے ملحقہ کمپنیاں دنیا کو ایک لامتناہی ہیجان کی طرف لے جا رہی ہیں ہر کچھ عرصے بعد میوزک اور روشنی کو تیز کرنے کے احکامات میڈیا ہاؤسز کی طرف سے جاری ہوتے ہیں اور ان کو بخوبی اس بات کا ادراک ہے کہ اس کی شدت کا شکار ہر نئی آنے والی نسل بری طرح ہوتی جا رہی ہے،،،،
اب دیکھنا یہ ہے کہ والدین اس سلسلے کو روک سکتے ہیں یا نہیں اور ان کو اس کے لیے کیا کرنا چاہیے ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ کونپل کو موڑنا آسان ہوتا ہےآپ درخت کا تنا نہیں موڑ سکتے اس لیے اصلاحی تجاویز بھی بالکل بچپن ہی سے شروع ہوتی ہیں۔ جو کہ مندجہ ذیل ہیں۔ان میں ۔۔۔
1) چھوٹے بچوں سے کھانے اور پہننے میں میں ان کی پسند کبھی نہ پوچھیں۔ ان کو اپنی مرضی کا کھلائیں اور پہنائیں اور بہت ورائٹی ان کو نہ دکھائیں۔(پہلے تو کھانےمیں کبھی کوئی چوائس نہیں تھی۔جو پکا تھا سب کے لئے ایک جیسا اور وہی کھانا ہوتا تھا) اگر ناپسندیدگی کا اظہار کرے پہلے اسے بہلائیں باتوں میں لگا کر اس خوراک کی محبت اس کے دل میں ڈالئے جواب اس کے لیے مناسب سمجھتے ہیں اس میں یقینا وقت لگےگا مگر بچہ پالنے میں وقت تو لگتا ہی ہے
2) جلد بازی نہ کریں نہ ضد کریں نہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے عجلت میں کام نکالیں بلکہ دوستی اور محبت سے اپنی پسند کو اس کی پسند بنا دیں اس میں آپ کی نفسیاتی مہارت کا امتحان ہےاور یہ زیادہ مشکل نہیں ہے شروع میں آپ اسکو باتوں میں لگائیں بعدمیں وہ خود اس بات کی خواہش کرے گا کہ آپ سے مشورہ بھی کرے اور مزے دار کہانیاں بھی سنے گا
3) اسکرین کی محبت ایک فطری محبت ہے کیونکہ کہ بچوں کی نفسیات ک پیش نظر ہی رنگ برنگی دلچسپیاں پیدا کی جاتی ہیں کوشش کریں کہ اسکرین کا سامنا کم سے کم ہو اور سامنا ہونے کے وقت بہت ساری مضر باتوں کے خلاف ایک غیرمحسوس نفرت اس کے دل میں پیدا کریں جو کہ مشکل نہیں ہے بچہ اسکرین کی دلچسپی کو محدود انداز میں لے گا اور جو نفرتیں اس کے دل میں پیدا ہوئی ہیں وہ ساری زندگی موجود رہینگی۔
4 ) جب اپنی کسی خواہش کی عدم تکمیل پر بچہ غصے میں ہو اس وقت خود والدین زبردستی اور مارکٹائی کے ذریعے اس کے جذبات کو کچلنے کی کوشش نہ کریں بلکہ پہلے پیار سے سمجھائیں متبادل دلچسپی یا مصروفیت کی طرف توجہ مبذول کرائیں
5) جس وقت بچہ غصے میں بے حال ہو اور کوئی بات نہ سن رہا ہو اس وقت فوری طور پر لاحول پڑھ کر اس کے چہرے پر دم کریں کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور لاحول پڑھنے سے شیطان دفع ہوتا ہے اور فوری طور سے بچہ قابو میں آتا ہے اس کے بعد بچے کو بھرپور توجہ اور محبت سے بہلالیں یہ طریقہ انتہائی آزمودہ اور تیر بہدف ہے۔
6) غصیلے بچے بھرپور توجہ مانگتے ہیں سرسری توجہ سے انکا کام نہیں چلتا،ایسے بچوں کے والدین پوری طرح ان کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں پیار سے سودے بازی سے کسی بھی لالچ سے کام نکالنے کی کوشش کریں اس سلسلے میں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اس کا سرکش یا بدتمیز رویہ اس کے لیے نہ صرف ابھی بلکہ آئندہ بھی مشکلات پیدا کرے گا۔
7) زندگی میں نظم و ضبط قائم کریں نظم و ضبط کا فقدان انسان کو خواہشات کا غلام بنا دیتا ہے اگر گھر میں کسی کام کا کوئی نظام الاوقات نہ ہوگا تو بچہ بھی یہی چاہے گا کہ جب جو جی چاہے کرلے جب چاہے کھائے جب چاہے کھیلے اور چاہے سوئے۔ نظم و ضبط قائم کرنا والدین کی صلاحیتوں اور باہمی تعاون کا امتحان ہے اگر والدین کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا ہوتی ہے اور گھر میں بچوں کے لئے بھی کوئی نظام الاوقات بنا ہوا ہوتا ہے تو بچے اتنی شدت سے اپنی بے اعتدالی پر اصرار بھی نہیں کرتے کیونکہ انھیں پتا ہوتا ہے کہ اس وقت کیا کچھ ہوسکتا ہے اور کیا نہیں
8) والدین کو لازمی طور پر اپنے رویوں سے عدم برداشت کا خاتمہ کرکے تحمل پیدا کرنا ہوگا اگر والدین انفرادی اور باہمی رویوں میں ضد غصہ خود غرضی اور چیخ و پکار یاتوڑپھینک پر کار بند ہوئے تو بچوں میں عدم برداشت کا ہونا فطری بھی ہے اور اکتسابی بھی،،،،
یاد رکھیے آپ اپنے بچے کا آئیڈیل ہیں چاہے اچھے ہوں یا برے۔۔۔ آئینہ بھی ہیں ،،، لہذا جیسے آپ ہیں ویسے ہی آئینہ آپکو دکھائے گا آئینہ بات نہیں سنتا اور بچہ بھی ۔۔۔۔ جو دیکھتا ہے وہی دکھاتا ہے لہذا کوشش کریں کہ بچے کو آپ میں بھی اور ماحول میں بھی اچھا ہی نظر آئے تاکہ وہ بھی اچھا ہی دکھانے ۔
جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اور باہر کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے اس میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں ایسے میں بچے کو الزام دینے کے بجائے باہر کے ماحول کی خامیاں اور کمزوریاں اس کے سامنے رکھی جائیں اور گھرمیں سیکھی ہوئی باتوں کی اہمیت اور استحکام اس پر اجاگر کیا جائے تو بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور عدم برداشت میں کمی ہوتی جاتی ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: