دسمبر کے اوائل سے ہی سرد ہواؤں نے ٹورنٹو میں ڈیرے ڈال لیۓ تھے” سورج کی کمزور زرد کرنیں بجھتے ہوۓ دیۓ کی نحیف لو کی طرح سہمی ہوئ ہر سمت بکھر رہی تھیں۔ ۔۔۔خوبصورت درختوں کے ہرے بھرے پتوں نے برف کی دبیز چادر اوڑھ لی تھی ‘ آج صبح سے گھر کا ماحول سخت کشیدہ تھا ‘ شام کی چاۓ پر سب خاموش بیٹھےتھے۔مما کے ماتھے پر لکیریں کسی طوفان کا پیش خیمہ تھیں ۔پاپا ہمیشہ کی طرح اردگرد سے قدرے لا پرواہ اور لا تعلق تھے ۔۔وہ اپنے پسندیدہ مفنز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کانٹے کی مدد سے کھانے میں مگن تھے ۔۔
مما کی لاڈلی مناہل بھی آج کچھ نروس تھی۔۔۔اس کی نظریں تو بس اپنی پلیٹ میں رکھی پینٹ بٹر کوکی پر مرکوز تھیں ۔اس لمحے اسے مما کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی تاب نہ تھی ۔۔
رضا جو کہ اس پریشان کن صورتحال کا تمام تر زمہ دار تھا وہ دم سادھے مما کے جواب کا منتظر تھا۔..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر یزدانی عرصہ پندرہ سال سے کنیڈا میں سکونت بزیر تھے۔۔اس زمانے میں کراچی کے کاروباری افراد آۓ دن کی ہڑتالوں اور بھتہ خوری سے پریشان تھے ‘ غضنفر صاحب نے اپنا چلتا ہوا کپڑے کا کاروبار سمیٹا اور بیگم اور دو بچوں کے ساتھ کنیڈا شفٹ ہو گۓ ۔۔۔ شروع کے چند سال تو کافی مالی مشکلات کا سامنا کیا۔۔اسی دوران فرح نے گھر کے پکے کھانوں کا کاروبار شروع کر لیا’ اور حالات سنبھلنے لگے۔
“فرح کوکس ” کے نام سے قائم یہ چھوٹا سا کاروبار اب شہرکے مشہور برینڈز میں نمایاں جگہ بنا چکا تھا۔رضا گریجویشن مکمل کرکے اب ماسٹرز کے آخری سمسٹر میں تھا اور مناہل ابھی ہائر اسٹینڈرمیں زیر تعلیم تھی۔۔۔
غضنفر صاحب ایک باوقار انسان تھے ۔فرح اور بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے ‘ اتنے سال بیرون ملک رہنے کے باوجود گھر کا ماحول خالص دیسی اور اسلامی کلچر کے مطابق تھا۔۔۔۔یوں تو بچوں کو مناسب حدود میں رہتے ہوۓ ہر طرح کی سوشل سرگرمیوں میں شرکت کی اجازت تھی ۔۔۔پر بچوں کی شادی کے معاملےمیں فرح کا ایک ہی فیصلہ تھا کہ پاکستان ہی میں بچوں کے رشتے طے کیۓ جائیں ۔۔۔۔اس کے خلاف وہ بالکل کچھ سننے کو تیار نہ تھیں ۔۔۔۔۔دراصل کینیڈا میں مقیم ان کی ایک بے حد عزیز سہیلی کے بیٹے بالاج کی شادی کے بعد پیش آنے والے حالات و واقعات نے انہیں خوفزدہ کردیاتھا۔۔بالاج نے ایک کینیڈئین مسلم گھرانے کی لڑکی سے پسند کی شادی کی اور شادی کے بعد اس کی بیوی کسی کے ساتھ گھلی ملی نہیں اور وہ فیملی سے بالکل کٹ کر رہ گیا ۔۔بس اسی وجہ سے جب رضا نے اپنی کلاس فیلو کینیڈین لڑکی کا تذکرہ کیا تو فرح نے کچھ کہے سنے بغیر صاف انکار کر دیا ۔۔۔۔اور سب جانتے تھے مما کا فیصلہ ہی گھر میں آخری فیصلہ ہوتا تھا۔۔۔۔
گھر کی فضا کافی دن تک کشیدہ رہی ‘ ماں کی ناراضگی کی فکر سے رضا نے خاموشی اختیار کر لی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی سب اپنی عبادات میں مصروف ہو گئے ۔۔
ایریا کے اسلامک سینٹر میں باقاعدہ نمازو تراویح کے ساتھ ساتھ افطار کا بھی انتظام کیا جاتا تھا۔۔۔۔۔ ان کے علاقے میں پاکستانی کمیونٹی کافی بڑی تعداد میں موجود تھی
فرح بہت خوش تھی ‘ اس سال 200 افراد کی افطار کا آرڈر “فرح کوکس “کو دیا گیا تھا۔۔۔۔ُ یہ ایک بہت بڑا ارڈر تھا۔۔۔
پہلے دن آرڈر ڈیلیوری کے لیۓ فرح اور مناہل اسلامک سینٹر پہنچیں تو ان کی ہیلپر کا پاؤں سلپ ہو گیا ‘۔اور پیر میں موچ آگئ۔۔۔اسے فرسٹ ایڈ کے لیۓ سینٹر کی ڈسپنسری یونٹ بجھوا دیا گیا ۔۔۔۔فرح بہت پریشان تھی پر سینٹر میں موجود ایک خوبصورت ہیزل آنکھوں والی لڑکی نے آگے بڑھ کرسامان کی تقسیم میں ان کی مدد کر دی ۔۔ افطار بہت منظم طریقے سے تقسیم ہوئی ۔۔وہ روشانے تھی ۔۔۔سامان سمیٹنے اور نماز کےلیۓ ہال کی صفائی بھی مناہل اور روشانے نے نفاست سے کر دی ۔۔۔۔۔۔۔
روشانے اپنی مما دادی جان اور پھوپھو کے ساتھ اسلامک سینٹر آئی تھی۔۔۔
روشانے کی والدہ اسلامک سینٹر میں درس و تدریس سے بھی وابستہ تھیں ۔۔۔کچھ ہی دیر میں فرح کی روشانےکی والدہ رابعہ سے بہت اچھی دوستی ہو گئ ۔۔۔وہ ایک کنورٹڈ کینیڈئین مسلم تھیں۔۔۔ان کی شادی ایک پاکستانی مسلم گھرانے میں ہوئی تھی۔۔۔اور وہ جوائنٹ فیملی میں سب کے ساتھ رہتی تھیں ۔۔۔
فرح کی ان دونوں سے اسلامک سینٹر میں روزانہ ہی ملاقات ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔فرح کو رابعہ سے علمی گفتگو میں بہت لطف آتا ۔۔۔۔وہ ان دونوں ماں بیٹی سے بے حد متاثر تھیں۔۔۔۔
رمضان کے اختتام تک وہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ روشانے جیسی ملنسار لڑکی کو اپنی بہو بنائیں گی ۔۔۔۔۔
غضنفر صاحب تو فرح سے روشانے کی اتنی تعریفیں سن چکے تھے کہ وہ بھی اس فیصلے پر بہت مطمئن نظر آرہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
رضا نے ماں کی خواہش پر روشانے کے گھر جانے کی حامی بھر لی ۔۔۔
عید کے روز حسب وعدہ گفٹس اور کیک کے ساتھ فرح پوری فیملی کو لے کرروشانے کے گھر پہنچیں ۔’ تاکہ معاملات کچھ آگے بڑھیں۔۔۔۔۔
روشانے کے والدین نے گرمجوشی سے انکا استقبال کیا۔۔۔۔روشانے کے دادا دادی اور چچا کی فیملی بھی موجود تھی ۔۔۔۔۔وطن کی پیاری ثقافت اور روایات کے مطابق سب نے مل کر شیر خورمہ اور مزیدار حلوہ پوری کا ناشتہ کیا۔۔۔۔ سب بچوں کو عیدی دی گئ ۔۔۔
فرح نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ رضا کو اس رشتے پرضرور راضی کر یں گی۔۔۔۔ان کے دل کے سارےوہم دور ہو چکے تھے ۔۔۔
رضا اور روشانے بے حد مسرور تھے ‘ ان کی سچی محبت رنگ لانے والی تھی’ یہ سب غضنفر صاحب کی پلاننگ تھی ‘ اسلامک سینٹر میں روشانے سے بیگم کی ملاقات کروائی ‘۔۔۔ باقی سب تو خود بخود ہوتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔کیونکہ کہتے ہیں نا کہ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں ۔’ زمین والے تو بس اس فیصلے کی تکمیل کرتے ہیں ”
















